کائنات کا فلسفہ

27

قافلہ ابھی شہر سے تھوڑا پیچھے تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت جو کہ کھجوروں اور اناج وغیرہ پر مشتمل تھا بھیگنے لگا۔ بارش سے بچتے بچتے اور محفوظ جگہ پر پہنچتے پہنچتے آدھا مال بھیگ چکا تھا۔ منڈی میں پہنچ کر تاجروں نے مال اتارنا شروع کیا ان تاجروں میں ایک بہت معصوم چہرے والا، انتہائی خوش شکل، پاکیزہ اور خوبصورت زلفوں والا نوجوان تاجر بھی موجود تھا۔ اس نوجوان تاجر نے جب اپنا مال اتارا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ خشک کھجوریں اور خشک اناج ایک طرف رکھ دیا اور بھیگی کھجوریں اور اناج علیحدہ کر کے رکھ دیا۔ جب خرید و فروخت شروع ہوئی تو نوجوان تاجر کے پاس جو خریدار آتا وہ اسے بھیگے مال کا بھاؤ کم بتاتے جب کہ خشک مال کا بھاؤ پورا بتاتے۔ گاہک پوچھتا کہ ایک جیسے مال کا الگ الگ بھاؤ کیوں۔۔۔تو وہ بتاتے کہ مال بھیگنے سے اس کا وزن زیادہ ہوگیا ہے لہٰذا خشک ہونے کے بعد وزن کم ہوجائے گا اور یہ بددیانتی ہے۔
لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی۔تھوڑی ہی دیر میں پوری منڈی میں ان کی دیانتداری کا چرچا ہوگیا۔ لوگ جوق در جوق معصوم صورت والے، روشن چہرے والے،پیاری آنکھوں والے تاجر کے گرد جمع ہونے لگے۔ساتھ ساتھ ان کے اخلاق کے گرویدہ ہوگئے۔
وہ معصوم اور خوش شکل نوجوان ”ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم“ تھے۔جنہوں نے کاروباری اصول و ضوابط اسی ایک واقعہ سے وضع فرما دیئے۔ جن میں ردوبدل تو کیا رتی بھر بھی جھول کی گنجائش ہے اور نہ تا قیامت ہو گی۔
”کسی نے بکریاں پالنے والے ایک دیہاتی
سے پوچھا کہ: ”آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور آپ سالانہ کتنا کما لیتے ہو؟“بکری والے نے کہا ”میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں، جو مجھے سالانہ تقریباً چھ لاکھ روپے دیتی ہیں۔ جو ماہانہ پچاس ہزار روپے بنتا ہے۔مگر جب، سوال پوچھنے والے نے، بکریوں کے ریوڑ پر نظر دوڑائی تو اس ریوڑ میں بارہ نہیں تیرہ بکریاں تھیں۔جب اس نے بکری والے سے اس تیرھویں بکری کے بارے میں پوچھا تو اس بکری والے کا جو  جواب تھا وہ کمال کا تھا، اس کے جواب میں زوال کی گنجائش نہ تھی۔اس کا جواب زندگی کی کامیابی پر ایک لکیر تھی اور اس کا وہی ایک جملہ، دراصل اس بکری والے کے کامیاب ہونے کا بہت بڑا راز تھا۔اس بکری والے نے کہا کہ ”ان بارہ بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرھویں بکری کے سال میں دو بچے ہوتے ہیں۔اس تیرھویں بکری کے ایک بچے کی میں قربانی دے دیتا ہوں اور اس بکری کا دوسرا بچہ میں کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں تاکہ اس کی زندگی کا پہیہ حیات کی پر کٹھن راہوں پر رینگتا رہے۔ اس لیے یہ ایک بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی اور نہ ہی میں اس کا شمار رکھتا اور نہ میں اسے کبھی شمارِ گردشِ ایام میں رکھا ہے۔ یہ تیرہویں بکری میری باقی کی بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور میرے لئے باعث خیر وبرکت ہے میرے لیے اطمینان قلب کا باعث ہے ”یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے“۔دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف،انسانوں کی نفسیات کا مطالعہ ایک طرف،شعور اور لاشعور پر بحث ایک طرف، طبیعات و مابعد الطبیعات کا فلسفہ ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے نوجوان کا یہ جملہ ایک طرف۔
اس ایک بات میں ان پڑھ، سادہ لوح، بکری والے گلہ بان نے، کامیابی کا وہ فلسفہ سمجھا دیا جو کامرس کی موٹی موٹی کتابیں بھی کسی کو نہ سمجھا سکیں گی۔
”لوگ، رزق کو محنت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ، رزق، سخاوت میں پوشیدہ ہے“۔ کائنات میں زندگی بسر کرنے کا سارے کا سارا فلسفہ ان دو واقعات میں مضمر ہے۔یہ دو واقعات انسان کی حیات کو شمع کی طرح فروزاں رکھ سکتے ہیں۔ ان واقعات سے سبق سیکھ کر ہم اپنے ملک، اپنے معاشرے،اپنے افراد اور اپنی زندگیوں کو بہت سہل اور آسان بنا کر شاہراہ حیات پر باآسانی چل کر اپنی منزل کو پا اور آخرت کی منزل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.