حسا س ترین آ ڈیو لیکس کامعا ملہ

18

وزیر اعظم اور وفاقی وزرا کی ٹیلی فونک گفتگو اور وزیر اعظم ہاؤس کی اجلاسوں کی مبینہ آڈیو لیکس اور بعض اطلاعات کے مطابق متعدد گھنٹوں کی ریکارڈنگز کی خفیہ ویب سائٹوں پر برائے فروخت موجودگی پاکستان کے اعلیٰ ایوانوں کی سائبر سکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے۔ سرکاری ویب سائٹس پر ہیکرز کے حملے اور بعض اہم اداروں کے ڈیٹا بیس میں دراندازی تک کے واقعات تو یہاں پہلے بھی بہت ہو چکے مگر ملک کے وزیراعظم کی ٹیلی فونک گفتگو یا اجلاسوں کی خفیہ ریکارڈنگ تک رسائی کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا مگر نہایت سنگین سکینڈل ہے۔ اوپن سورس انٹیلی جنس کا ایک پلیٹ فارم ٹویٹر تھریڈ میں جو تفصیلات سامنے لاچکا ہے وہ بہت چونکا دینے والی ہیں اور ہماری سائبر سکیورٹی کی صلاحیتوں پر مزید بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 20 اگست کو ایک ہیکنگ فورم پر کسی گمنام یوزر نے انکشاف کیا تھا کہ اُس نے وزیراعظم پاکستان کے لیک ہونے والے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لی ہے جسے اس یوزر نے ڈارک ویب پر فروخت کرنے کیلئے پیش کردیا۔ یعنی یہ افسوسناک کہانی جو ہم ان دنوں سن رہے ہیں ہیکرز کی دنیا میں یہ کوئی مہینہ بھر سے زیرِ بحث تھی مگر یہ کہ ہمارے سائبر سکیورٹی کے کسی ذمہ دار کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی۔ یہ ہمارے ان اداروں کی ناقص صلاحیتوں کا ایک ثبوت ہے۔ حکومت کی جانب سے اس وقوعے کی انکوائری شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جائے گی جس میں حساس اداروں کا نمائندہ بھی شامل ہو گا۔سرکاری اور غیر سرکاری ویب سائٹس اور اہم اداروں کے ریکارڈ پر بڑھتے ہوئے سائبر حملے شدید تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے یہ واقعات اس امر کی دلیل ہیں کہ سائبر سکیورٹی کے انتظامات ناتجربہ کار ہاتھوں میں ہیں اور فی زمانہ سکیورٹی کے اس اہم پہلو کو بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بھی پچھلے دنوں اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ گلوبل سائبر سکیورٹی انڈیکس میں پاکستان کا درجہ قائمہ کمیٹی کی اس تشویش کو تقویت دیتا ہے۔ اس درجہ بندی میں پاکستان 79ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش کا انڈیکس 10 اور 53 ہے۔ علاقائی ممالک کی فہرست میں بھی پاکستان بہت پیچھے ہے۔ گزشتہ برس اگست میں ملک کی پہلی قومی سائبر سکیورٹی
پالیسی کو منظوری ملی جسے سائبر امور کے حلقوں میں کافی سراہا گیا اور گورننس ٹیکنالوجی ہیومن ریسورس اور سائبر سکیورٹی کی آگاہی کے حوالے سے اس پالیسی سے بڑی توقعات وابستہ کی گئیں؛ تاہم اس ایک برس میں سائبر سکیورٹی میں عملاً کیا پیشرفت ہوئی اور عالمی درجہ بندی میں کتنی بہتری آئی یہ بدستور ایک سوال ہے۔ مگر اس دوران سائبر حملوں کے واقعات کو دیکھا جائے تو بظاہر کسی نمایاں بہتری کا تصور ممکن نہیں۔ وزیراعظم ہائوس کی مبینہ ریکارڈنگز اور ٹیلی فونک لیکس سائبر دراندازی کا نتیجہ ہیں یا کسی دیگر ہتھکنڈے سے ملک کے اہم اجلاسوں اورشخصیات کی گفتگو کو ٹیپ کیا گیا اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور یقینی بنانا چاہیے کہ اہم حکومتی دفاتر اس قسم کے خطرات سے محفوظ ہوں۔ اس کیلئے سائبر سکیورٹی کی قومی پالیسی کے اطلاق میں سنجیدگی کی ضرورت ہو گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ سائبر خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ جوں جوں آئی ٹی پر انحصار بڑھتا جائے گا سائبر ڈومین میں سکیورٹی کے تقاضے بڑھتے جائیں گے۔ یہ صرف حکومتی دفاتر اور شخصیات کیلئے اہم نہیں ہر شہری کو اس حوالے سے تحفظ کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب سائبر سکیورٹی کی پالیسی پر پوری طرح عمل کیا جائے گا اور سکیورٹی کے جملہ امکانات کو مد نظر رکھا جائے گا۔ ابھی تک ایسا چونکہ نہیں ہو رہا اس لیے حکومتی اداروں سے لے کر عام آدمی تک سبھی ان خطرات سے متاثر ہیں۔ آئے روز لوگوں کی ای میل سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور بینک اکاؤنٹس کی معلومات چرائے جانے جیسے جرائم کی خبریں آتی ہیں۔ دوسری جانب ملک کے خلاف ڈِس انفارمیشن کے لیے بڑے پیمانے پر آئی ٹی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ دسمبر 2020ء میں یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے نے سینکڑوں ایسی ویب سائٹس کا سراغ لگایا تھا جو دراصل بھارتی اداروں کی جانب سے چلائی جارہی تھیں مگر انہیں پاکستانی بنا کر پیش کیا جارہا تھا۔ ای یو ڈِس انفو لیب کے مطابق یہ نیٹ ورک 2005ء سے کام کررہا تھا مگر پاکستان کو اس کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ ای یو ڈس انفو لیب نے اس حوالے سے تحقیقات کے نتائج شائع نہ کر دیے۔ اسی طرح حالیہ دنوں مبینہ طور پر ڈارک ویب پرجس گروپ کی جانب سے یہ دعوے کیے گئے ہیں کہ اسے موجودہ اور سابقہ وزرائے اعظم کی اہم شخصیات سے گفتگو تک مکمل رسائی ہے اور لوگوں کو ان لیکس تک رسائی کیلئے بولی دینے کی پیشکش کی گئی اس کا اندازہ بھی قریب ایک ماہ کی تاخیر سے ہواہے۔ یہ تاخیر سائبر سکیورٹی میں ہماری کمتر صلاحیتوں کی نشاندہی کرتی ہے اور یہی اس خطے میں سائبر تحفظ کے اعتبار سے ہماری پسماندگی کی دلیل ہے۔ وزیراعظم ہائوس کی لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی کس نتیجے پر پہنچتی ہے اور کیا انکشاف کرتی ہے اس کا انتظار کیا جاسکتا ہے مگر یہ دہرانا برمحل ہو گا کہ سائبر سکیورٹی کی قومی پالیسی کے نفاذ میں تاخیر نہ کی جائے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی سائبر سکیورٹی اس وقت تک غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے جب تک کہ یہ معاملات پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل لوگوں کے بجائے ان لوگوں کی دست برد میں ہیں جو آئی ٹی کی الف بے سے واقف نہیں۔ پھر بات حکو مت ہی کے عہدیداروں تک ہی محدود نہیں،بلکہ اپو زیشن کے رہنما بھی محفو ظ نہیں۔ تحر یکِ انصا ف کے بانی عمران خا ن کی سا ئفر سے متعلق گفتگو اخبا را ت کی سر خیو ں کا مر کزہے۔قطعِ نظر اس امر کے کہ قانو ن اس گفتگوکو کس نظر سے دیکھتا ہے، با عث تشو یش یہ با ت ہے کہ یہ گفتگو کیسے ریکا رڈ کی گئی۔

تبصرے بند ہیں.