”میں کُدّن لگا جے“

29

ایک پاگل شخص عمارت کی چھت پر چڑھ گیا اورچیخنے لگا ”مَیں کُدّن لگا جے“۔لوگ اکٹھے ہو گئے۔ پولیس والے آ گئے۔ ایمبولینس بھی پہنچ گئی۔ پولیس والا سپیکر میں زور سے بولا ”نیچے آ جا۔۔ گر جاؤ گے“۔مَیں یہاں کوئی آم لینے نہیں آیا۔۔۔کودنے کے لیے آیا ہوں۔۔۔پچھے پچھے ہٹ جاؤ۔۔ میں کُدّن لگا جے“۔ وہ پاگل بولا ”مگر تم کیوں کودنے لگے ہو؟“ پولیس والے نے کہا۔”مجھے بادشاہ بنا دو ورنہ میں کدّن لگا جے“۔ پاگل نے دھمکی لگائی۔ ”ٹھیک ہے بادشاہ سلامت، نیچے تشریف لے آئیں۔۔ رعایا استقبال کی منتظر ہے“۔ پولیس والا کسی بھی طرح اُسے نیچے اتارنا چاہتا تھا اُس نے مجمع کی جانب خفیف سا اشارہ کیا۔لوگ شور مچانے لگے ”ساڈا بادشاہ زندہ باد۔۔۔ ساڈا بادشاہ زندہ باد۔۔۔“ میں نیچے نہیں آ سکتا۔۔ میں کدّن لگا جے۔۔۔”پاگل پھر اَڑ گیا”مگر کیوں۔۔۔اب تو آپ بادشاہ سلامت بھی بن گئے ہیں!“ پولیس والے نے پریشان ہو کر ادب سے کہا”جو قوم پاگلوں کو بادشاہ بنا لے، میں اُن میں نہیں رہ سکتا……میں کْدّن لگا جے“۔
جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی دلیل یہ تھی کہ تم ایک غلام قوم پرحکومت کر کے آئے ہو۔جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گئی ہے۔ یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی۔تو تم آزاد انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے۔اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے۔
ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا۔خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ واپسی پر اس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی۔خاتون نے لکھا
ہے کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹا تقریباً چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد مامور تھے۔روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پروگرام بنتے ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا باعث فخر جانتے اور جس کے ہاں ہم چلے جاتے وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بھی مشکل سے ہی میسر تھے۔ٹرین کے سفر کے دوران نوابی
ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالیشان ڈبہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا تھاجب ہم ٹرین میں سوار ہوتے توسفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتااور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین چلنا شروع ہوتی۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی اس سے پہلے کہ میں بولتی میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھااُس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی ڈرائیور نے حکم بجا لاتے ہوئے کہا کہ جو حکم چھوٹے صاحب کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ سٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہو کر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھالیکن بیٹا ٹرین چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوابالآخربڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹس دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی تو سفر کا آغاز ہوا۔چند ماہ بعد میں دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی۔ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے۔ ہماری منزل ویلز کی ایک کاؤنٹی تھی جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو سٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی۔قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر ہو گئی۔جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہو گیا۔جب ہم ٹرین میں بیٹھے تو عالیشان کمپاؤنڈ کے بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کر دیا۔وہ زور زور سے کہہ رہا تھا۔یہ کیسا الو کا پٹھا ڈرائیور ہے۔ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کر دی ہے۔میں پاپا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا۔میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہو گیا کہ یہ اُس کے باپ کا ضلع نہیں ایک آزاد ملک ہے۔یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا وزیر اعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کر سکے۔آج یہ واضح ہے کہ ہم نے انگریز کو ضرور نکالا ہے۔البتہ غلامی کو دیس سے نہیں نکال سکے۔یہاں آج بھی کئی ڈپٹی کمشنرز،ایس پیز وزرا مشیران،سیاست دان،جرنیل صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سٹرکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی چاہیے۔آپ یقین جانیں ملک کی سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور غریب کی حالت دیکھنے کے بعد کودنے کو دل کرتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.