گرگ ِ آتش

14

بھیڑیا ایک خطرناک، پھرتیلا، خوددار اور غیرت مند جانور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھیڑیے کبھی کسی کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتے بلکہ ہمیشہ جتھے کی صورت میں مل کر شکار کرتے ہیں۔ بھیڑیا ہمیشہ خاندان میں رہنا پسند کرتا ہے، ہر خاندان کا ایک سربراہ ہوتا ہے اور باقی تمام بھیڑیے اس کے تابع ہوتے ہیں۔ سربراہ بھیڑیا انتہائی طاقتور اور ذمہ دار ہوتا ہے، خاندان کی تمام ضروریات، آمد و رفت اور حفاظت جیسی ذمہ داریوں کو خوب اچھے طریقے سے نبھاتا ہے۔ بھیڑیا واحد جانور ہے جو اتنا طاقتور، تیز نظر اور پھرتیلا ہوتا ہے کہ اگر کسی جن کو دیکھے تو اس کو بھی دبوچ لے۔ نیز بھیڑیا ایک خوددار اور غیرت مند جانور ہے مگر ان تمام خوبیوں اور خصوصیات کے برعکس بھیڑیوں میں ایک خامی پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برفانی پہاڑوں میں شدید جاڑے کے موسم میں جب تمام جانداروں سمیت بھیڑیوں کو بھی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی فٹ جمی برف کی وجہ سے شکار کا ملنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے تو سب بھیڑیے ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی جانب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے ہی کوئی بھیڑیا بھوک اور نقاہت کی وجہ سے نڈھال ہو کر گر جاتا ہے تو باقی سب ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اسے چیڑ پھاڑ کر کھا جاتے ہیں اور اپنی خوراک کی کمی کو پورا کر لیتے ہیں۔ فارسی زبان میں اس تمام عمل کو ”گرگ آتش“ کہا جاتا ہے، اس پورے عمل کا اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ آج کل یہ رجحان بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک ہو بہو انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہم انسان جنہیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا، ہماری پہچان اسی انسانیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جبکہ بنی آدم اگر اپنے اندر سے انسانیت کو ختم کر کے حیوانیت پر اتر آئے تو معاشرہ تباہی اور بربادی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں موجود انسانوں نے بھی بھیڑیوں کا قانون اپنا رکھا ہے جو کمزور اور مجبور نظر آئے اُسی پر اپنی دھاک
بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں صاحبِ طاقت اور معاشرے میں زور آور شخص اپنے سے کمزور انسان کا حق اور مال کھانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو حالات ِ زندگی کا جتنا زیادہ ستایا ہوا ہوتا ہے اس شخص کے ساتھ اتنا ہی شدت پسندانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نا صرف کمزور کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں بلکہ اس پر پہلے سے تنگ شدہ زندگی کو مزید تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس انسان کو حالات اور تقدیر نے پہلے ہی گرا دیا ہو اسے ہاتھ تھام کر اُٹھانے کے بجائے مزید گرانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ حالیہ دور میں گزشتہ سال رونما ہونے والا سانحہ مری بھی بہت حد تک گرگ آتش کے عمل سے مشاہبت رکھتا ہے۔ جس میں بلند و بالاعالی شان، آسمان کی بلندیوں کو چھوتی عمارتوں اور قیمتی گاڑیوں کے شیشوں سے مبینہ طور پر گھورتے صاحبِ طاقت انسان کہلانے والے جب چھوٹی چھوٹی برف میں پھنسی گاڑیوں میں محصور ننھی منی نقاہت زدہ جانوں کے نڈھال ہو کر گرنے کا انتظار کرتے رہے۔ سانحہ مری موجودہ دور میں سب سے زیادہ دلوں کو ہلا دینے والی زندہ مثال ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ آج تک حکومتِ پاکستان کی جانب سے انمول جانوں کے نقصان پر کمیشن تو بن گئے مگر تا دم ِ تحریر لواحقین کو انصاف کی فراہمی نا ہو سکی۔ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان میں لینڈ مافیا، جاگیر دارانہ نظام، ہوٹل مافیا، بے لگام ٹرانسپورٹ مافیا غرض یہ کہ پاکستان میں ہر کاروبار اور سسٹم کے اوپر ایک مافیا پنجے گاڑے بیٹھا ہے جو کمزور کی رہی سہی زندگی کو بھی جہنم بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ بقول حبیب جالب
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہاں الٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
ہیں یہاں پہ کاروبار بہت
اس دیس میں گردے بکتے ہیں
کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت
اور کچھ کا مقصد روٹی ہے
جس قوم اور معاشرے میں کسی کمزور کی زمین، مال اور دولت ہڑپ کر نے کا رجحان موجود ہو وہ معاشرہ ”گرگِ آتش“ کی زندہ مثال بن جاتا ہے، جس سے ہر شریف اور نفیس انسان پناہ مانگتا دکھائی دیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں تمام مخلوق سے افضل پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے اندر ہمدردی، احساس اور دردِ دل رکھا ہے۔ درحقیقت کمزوروں پر جھپٹنے والا بھیڑیا نما آدم زاد انسانیت کے انتہائی پست درجے پر ہوتا ہے جو قرآن کریم اور نبی مصطفیﷺ کی دی گئی تعلیمات اور بتائے گئے راستے سے کوسوں دور اور بے اثر شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایسے بھیڑیے نما انسان بے شک دین کا لبادہ اوڑھ لیں یا سماجی و سیاسی شخصیت کے روپ میں خود کو پیش کریں۔ اپنے رعب و دبدبے کے ساتھ ساتھ بھیڑیے کی خصوصیات کے باعث معاشرے میں لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان کے وسائل پر قابض ہو کر وقتی خوشی اور فائدہ تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن یقینا فرعون کے ان پیروکاروں کا انجام بھی فرعون سے کسی قدر مختلف نا ہو گا۔ پاکستان کے تقریباً تمام شہروں، گلیوں اور محلوں میں ایسے گرگ آتش جیسے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں مگر کمزور اور بے بس لوگ اپنا معاملہ قانون کے کٹہرے میں لے جانے کے بجائے خالقِ کائنات کے سپرد کر دیتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں انصاف کا بر وقت مہیا نہ ہونا ہے۔ قدرت کے بنائے ہوئے اصول اور قوانین کے برعکس جو اپنے قوانین لاگو کر کے خود کو خالقِ کائنات کے ساتھ شریک کرتے ہیں نظام ِ قدرت میں ان کی پیدائش کا سلسلہ بچھو کی پیدائش کی مانند ہے، جس طرح چھوٹے چھوٹے بچھو بڑے بچھو کے پیٹ کو چاک کر کے باہر آتے ہیں بالکل ویسے ہی ان مافیاز کو چھوٹے مافیا ایک دن کاٹ کر خود باہر کی دنیا پر قابض ہو جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.