اب کوئی مودودی نہیں ہے

32

22 ستمبر کوجماعت اسلامی کے بانی، قرآن کے عظیم مفسر اورتاریخ ساز اسلامی مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی 43 ویں برسی تھی۔ جماعت اسلامی باقاعدہ طورپر برسیاں منانے کے حق میں نہیں، جماعت کے رہنما اسے شخصیت پرستی کہتے ہیں مگر دوسری طرف یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اخبارات میں رابطے کئے جاتے ہیں، مضامین فراہم کئے جاتے ہیں اور خصوصی اشاعتیں کروائی جاتی ہیں اور یہ مسئلہ صرف مودودی صاحب کی برسی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ میری نظر میں یہ تضاد،ایماندار اور دیانتدار لوگوں کی واحد سیاسی جماعت کا تقریبا،ہر معاملے میں ہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ برسی منائی جانی چاہئے تاکہ ہم مولانا مودودی کے کردار اور افکار سے سبق سیکھ سکیں۔ مجھے طلبا سیاست میں اسلامی جمعیت طلبا کی وجہ سے گرفتاری تک کا سامنا کرنا پڑا اور سچ تو یہ ہے کہ ایک عرصہ تک میں مودودی صاحب کی فکر اور جدوجہد کو بہت سارے کم فہم اورکم علم لوگوں کی طرح تعصب کی نظر سے دیکھتا رہا۔ میں نے مطالعہ پاکستان کے اچھے طالب علم کے طور پر کبھی انہیں تحریک پاکستان کی حمایت نہ کرنے پر معاف نہیں کیا مگر آج میں سوچتا ہوں کہ وہ بھی ایک انقلابی شخصیت تھے، ان کے پاس ٹھوس دلائل تھے،چاہے میں ان سے اتفاق کروں یا نہ کروں۔
میں نے تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا، میرے لئے ان کا ترجمہ بہت سارے دوسرے تراجم سے کہیں زیادہ آسان، قابل فہم اور قابل قبول ہے۔ میں ان کی شخصیت سے اس وقت متاثر ہوا جب میں نے ان کی تصنیف ’خلافت اور ملوکیت‘ پڑھی اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھی۔ اس امر سے انکار نہیں کہ وہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے مگر انہوں نے جب قلم اٹھایا تو ایک مسلمانوں کے حقیقی فکر مند لکھاری کے طور پر اٹھایا۔ ان کی تحقیق اور تصنیف پر خود دیوبندی مکتبہ فکر کو اعتراضات ہیں۔ ان کی یہ تصنیف سعودی عرب میں لے جائی، مطالعے اور فروخت کے لئے پیش نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے امام حسین علیہ سلام اور یزید لعین کے درمیان تنازعے کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ ہماری اصل تاریخ ہے۔ وہ بنوامیہ اور پھر اس کے بعد کی اسلامی تاریخ کا جو بیان کرتے ہیں وہ ذہن اور آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ علمائے دیوبند کہتے ہیں کہ مولانا مودودی کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے لہذا انہیں کوئی مقام نہیں دیا جا سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ مدرسے سے آزادی نے انہیں واقعی جسمانی اورفکری طور پر آزاد کر دیا، وہ واقعی آزاد منش آدمی تھے، کون ہے جو ان کے پائے کا عالم اور رہنما ہے اور فرقہ بندی تک سے آزاد ہے؟
جماعت اسلامی کی’الخدمت‘نے سیلاب کے دوران دکھی اور مجبور عوام کی خدمت کر کے ایک مرتبہ پھر توجہ حاصل کر لی ہے اور یہ مولانا مودودی کی تعلیم اور تربیت کا ہی خاصہ ہے اور مجھے آج یہ بھی کہنا ہے کہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اور ان کے بعد کی جماعت اسلامی میں زمین آسمان کا فر ق ہے۔ میں مولانا کو دیکھتا ہوں تو وہ اتنے بڑے حریت اور جمہوریت پسند تھے کہ برصغیر پر قابض انگریز کی دی ہوئی تقسیم کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ذرا سوچیے کہ جب بڑے بڑے نامور رہنما ایوب خان کے سامنے سرنڈر کر رہے تھے تو مولانا مودودی، نوابزادہ نصراللہ خان اور مجیب الرحمان جیسے اپنے سیاسی اور فکری مخالفین کے ساتھ مل کے، مادر ملت کو متحدہ پاکستان کا صدر بنانے کے لئے دل و جان سے لڑ رہے تھے اور اس اعتراض کا بھی سامنا کر رہے تھے کہ اسلام میں تو عورت کی امامت ہی نہیں۔ یہ ان کا ظرف تھا، ان کی بہادری تھی، ان کا ویژن تھا، میں ان کے بعد جماعت اسلامی کو ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے آمروں کی گود میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ کیا ہو گیا، کیسے ہو گیا۔ افسوس، دستیاب جماعت اسلامی نہ مولانا مودودی کی فکر رکھتی ہے اور نہ ہی جرات، قیادت، فراست اور سیادت، حالانکہ لوگ برے نہیں ہیں مگر شائد اپنے لیڈر جیسے بہادر نہیں ہیں جو پھانسی کی کوٹھڑی تک میں جا کے بھی نہیں جھکا تھا۔
میاں طفیل احمد سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں رہیں مگر قاضی حسین احمد کو میں نے قریب سے دیکھا، وہ اچھے شخص تھے، علامہ اقبال کے الفاظ اور سوچ پر مکمل گرفت رکھتے تھے اور واقعی اقبال کے شاہین تھے۔ سید منور حسن کی خشیت الٰہی کی میں ذاتی گواہی دیتا ہوں، میں نے انہیں نماز میں طویل ترین قیام، رکوع و سجود ہی نہیں اللہ کے خوف سے تھر تھر کانپتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اب سراج الحق بہت منکسرالمزاج اور درویش صفت بندے ہیں جیسے کسی مومن کو ہونا چاہئے۔ جماعت والے کہتے ہیں کہ وہ سب مودودی ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ ان میں سے شائد اب کوئی بھی مودودی نہیں ہے۔ مجھے کچھ روز پہلے سراج بھائی کی تجویز سن کر شاک لگا، جو بظاہر بہت زبردست اور خوبصورت تجویز تھی کہ آرمی چیف کی تقرری کا مسئلہ بھی اسی طرح ہمیشہ کی طرح حل کر دیا جائے جس طرح چیف جسٹس کی تعیناتی کا ہو چکا یعنی سینئر موسٹ کوآرمی چیف بنا دیا جائے۔ آپ اس شوگر کوٹڈ تجویزپر واہ واہ کر سکتے ہیں، تالیاں بجا سکتے ہیں مگر بنیادی طور پر یہ تجویز وزیراعظم کو آرمی چیف کے تقرر کے آئینی، جمہوری اور سیاسی اختیار سے محروم کرتی ہے۔ اگرچہ عدلیہ کی تاریخ جسٹس منیر کے دور سے ہی شاندار نہیں مگر چیف جسٹس کی تقرری میں خود مختاری نے عدلیہ کو ریاست کے اندر ہی نہیں بلکہ ریاست کے اوپر ایک اور ریاست بنا دیا ہے۔ اس کو خود مختاری ملی ہے تو وہ مدر آف آل انسٹی ٹیوشنز پر بھی حاوی اور بالادست ہو گئی ہے۔ سراج الحق اب ریاست کے اندر ایک اور ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کی طاقت کے نمائندہ ادارے ایوان وزیراعظم سے فوج پر اس کی بالادستی کے واحد اظہار کو بھی چھیننا چاہتے ہیں کہ فوج آئینی، کتابی یا زبانی طور پروزارت دفاع کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ میں فوج کے سربراہ کی تقرری میں میرٹ اور شفافیت کی ہرگز مخالفت نہیں کر رہا مگر اس امر پر ضرور احتجاج کر رہا ہوں کہ آپ وزیراعظم کے عہدے کو مزید کمزور کر یں۔
بات مولانا مودودی علیہ رحمہ کی ہو رہی ہے تو میری خواہش ہے کہ جماعت اسلامی والے ان جیسے جری اور بہادر ہوں، ان جیسا عزم او ر فہم رکھتے ہوں،حق اور سچ کی خاطر پھانسی کی کال کوٹھڑی میں جانے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور سب سے بڑھ کر آئینی، سیاسی اور جمہوری ذہن کے مالک ہوں تو وہ قوم کے مزاج اور تاریخ کا نیا تعین کر سکتے ہیں جیسے مولانا مودودی نے قرارداد مقاصد دی اور جیسے وہ ایوب خان کے سامنے ڈٹ گئے مگر اس کے آگے کی تاریخ شاندار نہیں ہے، پلیز، مجھے یہ مت بتائیے گا کہ آپ لوگوں نے ضیاء الحق کی وزارتیں تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے منہ پر مار دی تھیں یا یہ کہ آپ پرویز مشرف کی اپوزیشن میں تھے کہ اس طرح تو مجھے بتایا جائے گا کہ جناب عمران خان امریکی غلامی کے خلاف حقیقی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں بدتمیز نہیں ہوں مگر بے وقوف بھی نہیں ہوں۔

تبصرے بند ہیں.