اب جب کہ کو ئی شک نہیںرہا کہ وطنِ عز یز میں حا لیہ سیلا ب کی تبا ہ کا ریوں نے دنیا بھر کی تو جہ اپنی جا نب مبذول کرا لی ہے، تو ہم اہلِ پا کستان،آئی ایم ایف سمیت دیگر کرتا دھرتا ادا روں سے اپیل کر تے ہیں کہ ان حالات میںپاکستان کے قرضے معاف کیے جائیں۔ ہم پاکستانی عوام عالمی رائے عامہ سے اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان کو قرضے دینے والے ملکوں اور مالیاتی اداروں پر دباؤ ڈالے کہ سیلاب کی المناک تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستان قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا کیونکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیان کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اس کی ذمے داری دنیا کے صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے ان ممالک کو اپنی ذمہ د اری قبول کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کو تقریباً تیس ارب ڈالر کا حالیہ سیلابوں سے نقصان ہوا ہے۔ کروڑوں سیلاب متاثرین کے ریلیف اور بحالی کے لیے دل کھول کر مالی امداد کرنی چاہیے کیونکہ اکیلا کوئی بھی ملک ایسی غرق کرنے والی آفات سے نبردآزما نہیں ہو سکتا۔ جن ممالک اور مالیاتی اداروں نے پاکستان کو قرضے دے رکھے ہیں وہ انسانی ہمدردی کے پیش نظر قرضے معاف کر دیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیڈروں سے بھی اپیل ہے کہ وہ ذاتی مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر قرضوں کی معافی کے لیے توانا تحریک چلائیں تاکہ پاکستان کو قرضوں کے شکنجے سے آزاد کرایا جا سکے۔ ہمیں اپنی قوم و عوام کے شعور اور نظام کو بدلنا ہوگا، ملک میں عدل کے نظام کو مزید موثر بنانا ہوگا، ملکی ادارے جو قومی دولت اور وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے اور اسے دن رات لوٹتے ہیں ان اداروں کو بھی لگام ڈالنا ہوگی ، ملک میں جدید ٹیکنالوجیز لانا ہوں گی، آئی ٹی شہر کا قیام ، زراعت اور لائیو سٹاک میں چالیس سے ساٹھ فیصد تک پیداواری اضافہ کرنا ہوگا۔ ریاستی غیر ترقیاتی اخراجات میں چالیس فیصد کمی کرنا ہوگی ۔
تاہم یہا ں اس اپیل کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ قر ضے معا ف ہو جا نے کی صو رت میں ہم تن آ سا نی کا شکا ر ہو جا ئیں۔ ہمیں او ر ہما ری حکومتوں کو خو د بھی ہا تھ پا ئوں ہلا نا ہوں گے۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جنم لینے والی آفات سے بچنے کے لیے ملک کو طویل مدتی اور جامع آبی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اگرچہ مقامی ریکارڈ کے مطابق اس سال مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ تھیں، مگر مون سون سسٹم کے دیگر علاقوں میں بھی اوسط سے زائد بارشیں ہوئیں؛ تاہم جس درجے کے تباہ کن سیلاب ہمارے ملک میں آئے ہیں خطے کے کسی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ممالک میں بارشوں کے پانی کو سنبھالنے کے انتظامات ہمارے مقابلے میں بہتر ہیں۔ اس سلسلے میں بھارتی راجستھان کی مثال ہمارے لیے برمحل ہونی چاہیے جو سندھ اور جنوبی پنجاب سے ملحقہ علاقہ ہے، وہاں بھی اس سال جولائی اور اگست میں
بارشیں ریکارڈ ہوئیں مگر ڈیموں کی بڑی تعداد نے غیرمعمولی بارشی پانی کو سنبھال لیا۔ خبروں کے مطابق اگست کے آخر تک راجستھان کے سات سو سے زائد ڈیم مجموعی گنجائش کے ستر فیصد تک بھر چکے تھے۔ مگر ڈیموں کی عدم موجودگی اور نکاسیٔ آب کے روایتی راستوں کی بندش اس دوران ہمارے لیے غیر معمولی آفت کی صورت میں سامنے آئی۔ چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ہماری حکومت کی سست روی محتاجِ بیان نہیں۔ ملک کی تعمیر کو پون صدی ہونے کو آئی مگر آج بھی ہمارا انحصار صرف دو بڑے آبی ذخیروں پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے تین بڑے دریائی نظام میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے مگر اس دریائی نظام پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعداد دیگر دونوں دریائوں سے کم ہے۔ بھارت نے گنگا اور اس کے معاون دریائوں پر 24 ڈیم اور بیراج تعمیر کرلیے ہیں جبکہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعداد صرف نو ہے۔ ان میں سب سے آخر میں مکمل ہونے والا منصوبہ ’غازی بروتھا‘ بیس برس پہلے مکمل ہوا تھا۔ جبکہ انڈس ریور سسٹم کے دو بڑے ڈیم جو بلا شرکت غیرے ملک کے سب سے بڑے ڈیم ہیں 1967ء اور 1976ء میں مکمل ہوئے۔ قریب نصف صدی کے دوران ملک میں کسی بڑے ڈیم کی تعمیر کا نہ ہونا آبی مینجمنٹ میں ایسی بڑی کوتاہی ہے جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ صرف بڑے ڈیموں کی بات نہیں درمیانے اور چھوٹے ڈیموں کے معاملے میں بھی یہی رجحان رہا ہے۔ چنانچہ آبی ذخیرے کی گنجائش کے اعتبار سے ہمارا شمار بہت پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ انٹرنیشنل کمیشن آن لارج ڈیمز کے مطابق پاکستان میں ڈیموں کی کل تعداد 164 ہے جبکہ ہمارے ملک سے کہیں کم رقبے اور کم آبادی والے اکثر ممالک ڈیموں کی تعداد کے لحاظ سے ہم سے بہت آگے ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت کا نتیجہ صرف سیلابی تباہ کاریوں کی صورت میں برآمد نہیں ہوتا، اس نقصان کوفی کس دستیاب پانی کی کم مقدار اور زرعی شعبہ، جسے ہم فخریہ طور پر ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں، کے لیے پانی کی کم مقدار کی دستیابی کی صورت میں سامنے آنے والے نقصانات کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے۔ اس سال ملک کے جن حصوں کو مون سون سیزن میں مسلسل اور ریکارڈ بارشوں کا سامنا رہا انہی علاقوں میں کچھ پہلے تک خشک سالی کی شدت تھی اور انسان اور جانوروں کو پانی پینے کی فراہمی کے لیے ہنگامی بندوبست کرنا پڑے تھے۔ بارشوں کی صورت میں قدرت نے ان علاقوں کو پانی مہیا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث یہ پانی مقامی آبادیوں کے لیے تباہی کا سبب بنا۔ اگر ان علاقوں میں ڈیموں کا وسیع سلسلہ ہوتا، جیسا کہ دیگر ممالک میں ملتا ہے تو یقینا یہ پانی سیلاب کی صورت میں آبادیوں کے لیے تباہی کا سب بننے اور بالآخر ضائع ہوجانے کے بجائے محفوظ کرلیا جاتا اور وقت آنے پر پینے اور فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے دستیاب ہوگا۔ ملک کے ان جنوبی میدانوں کے لیے پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، مگر نم کیسے پیدا ہو جب حکومتوں کی ترجیحات میں آبی وسائل بہت نیچے ہوں۔ حکمران آبی ذخائر کے منصوبوں کے دعوے تو شد و مد سے کرتے ہیں، اکثر منصوبوں کے سنگِ بنیاد کی نوبت بھی ایک سے زائد بار آئی، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دکھاوئوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کیا جائے۔ ملک کو مزید ڈیموں کی ضرورت کے دلائل صرف سیلابوں کی تباہ کاریوں سے تحفظ کے انتظامات تک محدود نہیں، پانی کی قلت جو آنے والے برسوں میں ملک کو شدید آبی قلت والے ممالک میں شامل کیا چاہتی ہے، یہ بھی آبی ذخائر میں اضافے کی متقاضی ہے۔ پاکستان میں پانی کی طلب اور رسد کا فرق جو 2004ء میں 11 فیصد تھا، 2025ء تک 35 فیصد تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 1950ء میں ملک میں فی کس پانچ ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا مگر 90ء کی دہائی میں یہ دو ہزار کی سطح سے بھی نیچے آگیا جبکہ اس وقت ہم تقریباً اس سطح پر آچکے ہیں جسے ’شدید آبی بحران‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ملکی آبادی میں اضافہ خوراک کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کا لازمی تقاضا کرتی ہے مگر زراعت کا تصور پانی کے بغیر محال ہے۔ یہ سبھی پہلو ہمیں حتمی طور پر اسی نکتے پر لے آتے ہیں کہ مزید ڈیم بنائے اور آبی ذخیرے کی صلاحیت میں اضافہ کیے بغیر چارہ نہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.