معاشرے میں بھوک، بے روزگاری، مہنگائی، بے چینی جب حد سے بڑھ جائے، معاشی تفاوت و انارکی پھیل جائے اور اس میں ظلم و ستم کی انتہا ہو تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔ پہلا بغاوت اور دوسرا انقلاب کی طرف جانا۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب سیاست دانوں اور دوسری طاقتوں کی خود غرضی معاشرت اور سیاست کا حلیہ بگاڑ دیتی ہے تو بغاوت سے انقلاب تک کچھ بھی ممکن ہو تا ہے۔ بغاوت چونکہ قوموں کو بہت پیچھے لے جاتی ہے بلکہ میری ذاتی رائے میں کوئی بھی معاشرہ نچلی سطحوں کو چھونے لگتا ہے اورا س میں نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ بغاوت بنیادی طور پر آئین و قانون شکنی، آزادیٔ اظہار پر قدغن، طاقت کے استعمال اور غیر یقینی صورتحال سے تعلق رکھتی ہے۔ بغاوت کے بعد معاشرت کو ایک بار پھر سے منظم کرنا پڑتا ہے ۔ اس لئے ایسی دور اندیش قیادت جس کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوں وہ بغاوت کو نرم انقلاب میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انقلاب سے مراد مقصدیت کے لئے قربانی، معاشرے کی بناوٹ درست کرنے کے لئے کوشش، ایک تعمیری سوچ کی بنیاد پر خلقِ خدا کے سنگ قانون شکنی اور آئین شکنی کو آئینی اور قانونی فہم و فراست دے کر انسانی حقوق کو سرخرو کر دینا انقلاب ہے۔ سطحی لیڈر شپ نرم انقلاب کو بغاوت کا راستہ دکھا دیتی ہے چونکہ اس کی عوام میں جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں۔
زندہ اور حساس معاشروں میں عوام کی اہمیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ اپنی اسی اہمیت کی بنا پر فارمولوں کو طے اور استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ہی معاشروں میں ” طاقت کا سرچشمہ عوام ” والی بات صادق آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کو عوام آگے لانا چاہیں اسی کو اہم ہونا چاہئے اور وہ درست طریقہ ہے۔ عوامی رائے کی اہمیت مقدم ہونی چاہئے۔ جیسا نظام اور جس لیڈر کو عوام برسرِ اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں اسے ہی تمام اداروں کو بھی سپورٹ کرنا چاہئے۔ عوام کی رائے کوموڑنا نہ صرف جمہوری روایات کے خلاف ہے بلکہ اس کے معاشروں پر بڑے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، مائنس ون کی رٹ اب ختم ہونی چاہئے، یہ کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے۔ ویسے بھی اگر لیڈر سچا ہے ، اس کی سوچ عوامی ہے، گراس روٹ لیول کے مسائل پر گرفت رکھتا ہے اور اس میں تدبر ہے تو ایسے لیڈر کو کوئی غیر جمہوری طریقے سے مائنس ون نہیں کر سکتا۔
حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھ لیا کہ عمران خان کو 12 جماعتوں نے مل کر اقتدار سے بے دخل تو کر دیا لیکن اسے عوام کے دلوں سے نکالا نہیں جا سکا۔ حکومت چاہتے ہوئے بھی اسے مائنس کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تمام حربے استعمال کر کے بھی عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے جب بھی وہ کال دے گا پوری قوم لبیک کہے گی۔حیرت کی بات ہے کہ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر عمران خان مائنس ون فارمولے کی زد میں ہیں۔ جب کہ کسی ادارے یا مخالف لیڈر کے چاہنے کی بدولت مائنس ون نہیں ہوتا۔ اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو
بھی مائنس ون کیا گیا، پھر جونیجو کو مائنس کیا گیا، اس کے بعد زرداری اور پھر نواز شریف کو بھی مائنس ون کیا گیا۔ پانامہ لیکس کے بعد عمران خان میاں نواز شریف کا مائنس ون کرا گئے اور آج پی ڈی ایم عمران خان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس کا مائنس ون چاہتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جب بھی مائنس ون ہوا عوام نے مٹھائیاں بانٹیں، خوشیاں منائیں، لیکن واحد عمران خان کو جب اقتدار سے بے دخل کیا تو لوگ باہر نکل آئے یہی چیز ہے جو اسے مائنس ون نہیں ہونے دے گی اپوزیشن یا اسٹیبلشمنٹ جتنا بھی زور لگا لے۔ پھر پی ڈی ایم کی حکومت نے جس طرح سے مہنگائی اور روزگار کا بیڑا غرق کیا ہے اس سے اس کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ زرداری نے پیپلز پارٹی کا صفایا کرایا اور شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کا صفایا کرا رہے ہیں۔
پاکستان میں پارٹیاں وجود ہی اپنی قیادت کے سبب رکھتی ہیں۔ دوسری تمام پارٹیوں کی قیادت کی طرح خود عمران خان بھی تحریکِ انصاف کا محور و مرکز ہیں۔ وہ نہیں ہوں گے تو کیا تحریکِ انصاف ہو گی؟ جس مائنس کی بات پی ڈی ایم یا پھر اداروں کے دل میں ہے وہ تحریکِ انصاف تو ہے ہی عمرا ن خان کے دم خم سے۔ ہم نے دیکھ بھی لیا کہ جلسوں میں جوش و جذبے سے شرکت کر کے مائنس ون کی سوچ کو رد کر دیا۔ مائنس ون کچھ بھی نہیں ہے میرے خیال میں جسے عوام چاہیں وہ پلس ہے وہ کوئی بھی ہو اور یہی جمہوریت ہے۔ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دان جمہوریت کی گردان تو بہت کرتے ہیں لیکن اپنی سوچ کو جمہوری بنانے پر تیار نہیں ہوتے۔ کوئی بھی مائنس ون ہو گا یہ کسی بھی جماعت کے لئے بہتر نہیں ہے۔ اس لئے پی ڈی ایم کو مائنس عمران خان فارمولا دینا زیب نہیں دیتا۔عمران خان نے خصوصاً اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کرکٹ کے میدان میں ہی کھڑے ہونے کے ماہر نہیں تھے بلکہ وہ سیاسی میدان میں ٹھہرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو اکٹھا کئے ہوئے ہے ورنہ ان دونوں پارٹیوں کے نظریات میں تو زمین آسمان کا اختلاف ہے۔ اکثر لیگیوں کے لئے پیپلز پارٹی کے ساتھ اور کئی پپلیوں کے لئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اقتدار میں بیٹھنا اقتدار سے باہر بیٹھنے سے زیادہ مشکل ہے۔
اب مائنس ون فارمولے کی رٹ کا خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ عوامی رائے ہی مقدم ہوتی ہے ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ اس طرح کی کوششیں کی گئیںلیکن وہ تمام کی تمام ناکام ہوئیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے باوردی صدر منتخب ہونے کے بعد متعدد بار علی الاعلان یہ کہا تھا کہ نواز شریف اور بے نظیر وطن واپس نہیں آئیں گے اور اب پاکستانی سیاست میں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ اس کے لئے انہوں نے مخدوم امین فہیم کو وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دے کر توڑنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ بے نظیر سے غداری کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ اسی طرح کے حربے شہباز شریف کے لئے بھی استعمال کئے گئے اور انہیں نواز شریف کو چھوڑ کر صدر پرویز مشرف سے تعاون کر نے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح اب دیکھا گیا کہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل ہو کر جلاوطن ہونا پڑا لیکن اسے پاکستان کی سیاست میں اب بھی وہی مقام حاصل ہے۔ ان تمام حربوں کے باوجود مائنس ون فارمولا کہیں کامیاب نہیں ہوا۔ اس امر میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ عوام کی مقبول لیڈر شپ کو مائنس ون کرنے کی کوششوں کا انجام بھی وہی ہو گا جو پہلے ہوا اور جس کا خمیازہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.