مسٹر ڈپٹی کمشنر: آپ لاہوریوںکی مدد کرنا چاہتے ہیں؟

75

پرانے شہروں اورماں باپ میں ایک قدرمشترک ہوتی ہے کہ یہ جوں جوں پرانے ہونے انہیں زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ انہیں تبدیل کرلیا جائے ۔ لاہور میرا شہر نہیں میری پہلی محبت ہے اور پہلی محبت تو انسا ن کو قبر تک یاد رہتی ہے ۔ صدیوں نہیں ہزاریوں پرانا لاہور اقوام عالم کی توجہ کا مرکز ہے لیکن میرا لاہور وہ بدقسمت ماںہے جس کے بیٹوں کے سامنے اُس کی تذلیل ہو رہی ہے لیکن وہ تذلیل کرنے اور کرانے والوں کے ساتھ تصویریں اتار کر فخر سے فیس بک ٗ ٹیوٹر ٗواٹس ایپ اورسماجی رابطے کی دوسری سائٹس پر لگاتے ہیں ۔ لاہور کے بارہ دروازے مجھے ماں کی آغوش کی طرح عزیز ہیں کہ انہوں نے میری پرورش میں ماں جیسا کردار ہی ادا کیا ہے ۔ بڑے شہر میں پیدا ہونا بذات خود اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ انسان بہت سے محرومی سے بچ جاتا ہے یہ میرا تفاخر نہیں تجربہ ہے ورنہ خواہش اور جدو جہد تو عمر بھی یہی رہی کہ بلوچستان کے دور افتادہ گائوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی وہی سہولتیں مفت میسر ہوںجو لاہوریے اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو دیتے ہیں ۔ سرکاروں کی جمع تفریق کے فارمولے ٗ ماپ تول کے پیمانے اور فوقیتی ترتیب اُن کے ووٹ بنک سے جڑی ہوتی ہے ۔چونکہ ہمارا طریقہ تعلیم آج بھی وہی ہے جو آقائوں نے اپنے غلاموں کیلئے منتخب کیا تھا سو ہماری بیوروکریسی میں کلرک ذہنیت زیادہ جبکہ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے افرادکم ہی ایسی قید کے عادی ہوتے ہیں۔مصطفی زیدی اور پروین شاکر اگر صرف بیوروکریٹس ہوتے تو آج ردی کی ٹوکری میں پڑے ہوتے لیکن اُن کی تخلیقی صلاحیتوں نے انہیں امرکردیا ۔ یقینا ان لوگوں نے اپنے اداروں میں رہتے ہوئے بھی بہت کچھ نیا سوچا ہو گا ۔ لارڈ میکالے نے واقعی ایسی نسل پیدا کرکے مشترکہ ہندوستان کو دی جن کے جسم ہندوستانی اور ذہن انگلستانی تھے ۔بدقسمتی سے پاکستان کے حصے میں آنے والے یہ اذہان آج 75 سال بعد بھی ہم پاکستانی بنانے میں ناکام رہے ہیں ۔تھانے کے باہرکھڑا سنتری اورڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر کھڑا چپڑاسی آج بھی ’’صاحب بہادر ‘‘اور عوام کے درمیان صراط کا پل بنا ہماری آزادی کا منہ چڑا رہا ہے ۔ لاہور کے وہ بیٹے جو افسر بن کر لاہور میں اعلیٰ عہدوں پر تعینا ت ہوئے وہ بھی لاہور کے تاریخی ورثے کو قبضہ مافیا اور بددیانت ماتحت افسران کی کرپشن اور رشوت ستانی کی لت سے چھٹکارا نہ دلا سکے جس کی زندہ مثال کامران لاشاری ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
لاہور کبھی ایک شہر کا نام تھا مگر ماضی کے جھروکوں سے جھانکتا ہوں تو اس شہر کے مختلف ادوار آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیںجس کی تقسیم انتہائی سادہ اور دلچسپ ہے ۔ پہلا لاہور تو وہ ہے جو میں نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا اورچشم تصور سے دیکھا ۔دوسرا لاہورمیں نے اپنے والد صاحب کی آنکھوں سے دیکھا جنہوں نے بچپن میں میری انگلی پکڑکر مجھے اندرون ِاوربیرونِ لاہور کی اہم
عمارتیں اور مشہور خاندانوں بارے بتایا ۔تیسر ا لاہور جہاں میں نے اپنا بچپن اور جوانی گزاری اورچوتھا لاہور جہاں اب چند سال بعد میں سینئر سٹیزن بننے جارہا ہوںاگر اللہ کو منظورہوا تو ۔ یہ چاروں لاہوررہن سہن ٗ زبان و ادب ٗ تہذیب و ثقافت ٗ فن تعمیر یہاں تک کے میل ملاپ میں بھی ایک دوسرے سے ہرحوالے سے کہیں مختلف کہیں متضاداورکہیں متصادم ہیں ۔ لاہور کو اگر تاریخ کے اوراق میں بیرونی حملہ آوروں نے برباد کیا تھا تو بیرونی حملہ آوروں نے یہاں مستقل قیام کرکے اس کے خدو خال کو معتبر بنانے میں بھی اہم کرداراد ا کیا تھا ۔ جغرافیائی طور پر بھی لاہور کے اندر چار لاہورآباد ہیں۔ پہلا لاہور فیروز والہ کی حدود ختم ہونے پر شروع ہوتا ہے اور دریا راوی کے کنارے آ کر ختم ہو جاتا ہے ۔ دوسرا لاہور دریائے راوی کے اِس کنارے سے شروع ہوتا ہے اور اُسے نہرتقسیم کردیتی ہے ۔ تیسرا لاہور نہر کے دوسرے کنارے سے شروع ہو کر بارڈر تک چلا جاتا ہے جبکہ چوتھا اورحقیقی لاہور آج بھی بارہ دروازوں کے اندر ہے ۔ جی ! وہی لاہور جو میری پہلی محبوبہ ہے۔
مسٹر ڈپٹی کمشنر لاہور
میری موجودہ رہائش گزشتہ 30 سال سے داتا گنج بخش ٹائون میں ہے۔ ٹائون کیا ہے بارود کے ڈھیر پر بچوں کو لئے بیٹھا ہوں اورمیری طرح باقی لاہوریوں کا بھی یہی حال ہے ۔ صبح میرا سفر ٹمپل روڈ سے شروع ہوتا ہے تو تھانہ مزنگ کے گیٹ کے بالکل سامنے سالہا سال سے ایک شخص گیس کے خالی سلنڈر بھرتا ہے جس کے ساتھ لکڑیو ں کا ٹال اور کوئلے کا گودام ہے ۔ یہاں اکثر دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہتی ہیں لیکن حرام ہے کسی کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی ہو ۔ ایک بار دیس محمد نام کے ایس ایچ اوکواہل علاقہ نے درخواست گزار ی تو انہوں نے یہ کہہ کرکارروائی کرنے سے انکار کردیا کہ متعلقہ شخص نے شہر جلانے کی اجازت ڈپٹی کمشنر سے لے رکھی ہے ۔ ممکن ہے یہ اجازت کسی زمانے میں لکڑیوں کے ٹال اور کوئلے کیلئے ہو لیکن گیس کے سلنڈز بچوں کے سکول کے ساتھ بیٹھ کر بھرنا میری سمجھ سے باہر ہے ۔ یہی کام مزنگ اڈے پر بھی کھلے بندوں جاری و ساری ہے
ڈسٹرکٹ گورنمنٹ تو تاحال نہ ہے لیکن ڈسٹرکٹ مینجمنٹ ڈسٹرکٹ ملازمین سے لا تعلق رہ کر انہیں من مانی کی کھلی چھوٹ کب تک دیئے رکھے گی ؟ تجاوزات کے جن نے داتا گنج بخش ٹائون میں ایسا بسیرا کررکھا ہے کوئی گلی ٗ کوئی محلہ ٗ کوئی سڑک ایسی نہیں جو اِس آسیب کے زیر اثر نہ ہو۔ داتا گنج بخش ٹائون کے ملازمین سرعام رشوت لے کر تجاوزات کی نہ صرف اجازت دیتے بلکہ ایسا کرنے سے انہیں کوئی مائی کا لعل نہیں روک سکتا۔ ٹائون انتظامیہ کی مرضی کے بغیر کوئی شخص ایک اینٹ بھی نہیں لگا سکتا لیکن اس ٹائون میں سیکڑوں تعمیرات بغیر نقشہ کے بن رہی ہیں ۔دکانوں کے آگے تجاوزات کی اجازت منتھلی لے کردی جاتی ہے۔ نیو انارکلی کے مشہور بازار دھنی رام روڈ پر ٹائون انتظامیہ کی مہربانی سے اس بازار نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ قبضہ مافیا نے ایک پرانی دکان اسحاق سنز کی چھت خرید کر ذمہ داران سے ساز باز کرنے کے بعد اِس سو سال پرانی بنیادوں پر لینٹر ڈال لیا ہے اور ابھی وہ مزید بلندی پر جانے کیلئے نئے ستون کھڑے کررہے ہیں جو کسی وقت بھی بڑے حادثے کی وجہ بن سکتاہے لیکن ان چھوٹے کرپٹ ملازمین کی بلا سے کسی کا بچہ مرے یا بزرگ ٗ کسی کی ماں مرے یا بہن ۔ ان کا تعلق صرف اپنے ذاتی مفادات اور لالچ سے ہے ۔اورانہیں پورا کرنے کیلئے ہم نے ریاستی اورحکومتی مشینری ان کے حوالے کر رکھی ہے ۔ اسی دھنی رام روڈ پر آمنہ ایمپریشنز کے ساتھ چار فٹ کی گلی کے اندر دس مرلے کے پلاٹ پر پلازہ کھڑا کرلیا ہے جہاں پارکنگ بیسمنٹ کے نام کی تو کوئی چیز نہیںالبتہ بیسمنٹ دس مرلے کا ہی کھودا گیا ہے اب یہ کوئی قبر کی کھدائی تو تھی نہیں کہ کوئی راتوں رات کر کے چلا گیا مہینوں ٹائون کی زیر نگرانی اس پر کام ہوتا رہا۔ ٹرانسفارمر لگوانے کے بجائے متعلقہ ایس ڈی او اور لائن مین سے ساز باز کرکے پہلے سے موجود ٹرانسفارمر سے پورے پلازے کیلئے بجلی لے لی ہے اور دکانوں کی فروخت کے بینر پر بڑے حروف میں لکھادیا گیا کہ ’’داتا گنج بخش ٹائون سے منظور شدہ ‘‘۔ لطف تو یہ ہے کہ ہال روڈ پر خدمت گروپ کے صدر بابر محمود نے سیلاب زدگان کیلئے فنڈ اکھٹا کر کے اُس کی بھرپور تشہیر سوشل میڈیا پر کی لیکن کسی کو یہ نہیں بتایا کہ وہ ہال روڈ پرواقع نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹواور سابق نگران وزیر اعظم پاکستان معراج خالد کے تاریخی مکانوں کو مسمار کرکے پلازہ بنا رہا ہے جس میں اُس نے پلازے کے بیسمنٹ کو سٹرک کے نیچے تک طول دے دیا ہے۔ بندہ پوچھے یہ سٹرکیں بابر محمود کے بزرگوں کی ہیں یا ایم آراو کی آبائی زمینیں ہیں جن کو وہ اونے پونے داموں بیچ کر لاہورکا ثقافتی اورادبی ورثہ ختم کرکے اسے مزید بدصورت بنا رہا ہے ۔ اس ٹائون میں آپ کسی طرف بھی چلے جائیں ضلعی انتظامیہ کے ہاتھوں شہر کے بربادی کے مناظر آپ کو ہر جگہ ملیں گے ۔ وہ وکٹوریہ پارک ہو یا پھر بلال گنج ٗ اسلام پورہ ہو یا پھر ساندہ ٗ فوڈ سٹریٹ ہو یا بلال گنج ۔اسی ٹائون میں پنجاب کے سب اہم ترین سرکاری دفاتر ہیں ۔جن میں پنجاب اسمبلی سے لے گورنر ہائوس ٗ سپریم کورٹ رجسٹری ٗ ہائیکورٹ ٗ سیشن کورٹ ٗ سول کورٹ ٗ بورڈ آف ریوینو ٗ بورڈ آف انٹر میڈیٹ ٗ آئی جی پنجاب ٗسیکرٹریٹ ٗسی سی پی او لاہورٗ سپیشل برانچ ٗسٹیٹ بنک انگنت سکول اور مشہور و معروف کالجز اور یونیورسٹیز کے علاوہ خود کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لاہور کے دفاتر بھی اسی ٹائون میں آتے ہیں ۔ حیرت اسی بات کی ہے آپ لوگوں نے کبھی دفاترسے باہر نکل کرمیرا لاہور دیکھا نہیں ورنہ آپ اس سے اتنا لاتعلق نہ رہتے ۔ امید ہے کہ آپ لاہوریوں سے محبت کا ثبوت دیں گے ورنہ عدالتیں تو آج کل دن رات کام کر ہی رہی ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.