ہم لوگ حق پرست ہیں لیکن یہی کہ بس

7

انسانیت کا آغاز روئے زمیں پر حضرت آدم  ؑ سے شروع ہوا اور جیسے جیسے زمین پر انسانوں کی تعداد بڑھتی گئی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام کے ساتھ ساتھ اپنی ہدایت بھی اتاری، مختلف صحیفوں، آسمانی کتابوں کے ذریعے وحی کا سلسلہ چلتا رہا اور پھر یہ سلسلہ قرآن کریم کے بعد مکمل طور پر بند کر دیا۔ یعنی قرآن کریم کا آخری پیغام انسانیت کے لیے روزِ قیامت تک مقرر کر دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور قرآن کریم کے بعد ہدایت کی کوئی اور کتاب نہیں۔ ربِ دو جہاں نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتاتے ہوئے انسانوں کو اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انسانوں کو زمین کا مالک اور اپنا خلیفہ مقرر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ میرے احکامات پر عمل کرو کیونکہ میں ہی تمام کائنات کا خالق اور مالک ہوں۔ کہہ دو کہ اللہ میرے لیے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ قرآن کریم کی آٹھ آیات میں ربِ دو جہاں نے ان لوگوں کی خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے جنہیں اللہ رب العزت اپنا دوست رکھتا ہے۔ ان خوبیوں اور خصوصیات میں نیکی کرنا، اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتے رہنا، پاک صاف رہنا، اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور توکل کرنا، تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرنا اور راہِ خدا میں ثابت قدم کھڑے رہنا شامل ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: خدا نیکی کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا جو بھی یہ خوبیاں اپنے کردار میں پیدا کر لے گا ربِ دو جہاں اس بندے کو اپنا دوست قرار دے گا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ اللہ کے دوستوں کو نا کسی کا خوف ہوتا ہے اور نا ہی کسی چیزکا غم۔ جب کوئی دنیاوی طور پر اونچے رتبے پر
فائز شخص آپ سے کہہ دے کہ فکر مت کرو میں آپ کے ساتھ ہوں تو آپ کو کس قدر تسلی ہو جاتی ہے لیکن جب اللہ رب العالمین آپ سے بار بار کہہ رہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، میرے سوا نہ کوئی تمہارا مددگار ہے نا دوست تو ہم اس بات کو معمولی کیوں سمجھتے ہیں۔ ایک مومن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے ربِ لاشریک کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہوتا ہے، اسی میں ہی دنیا اور آخرت کی سرخروئی ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے جو مشکل کُشا ہے جب کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اپنی مشکلات کے حل کے لیے دنیاوی سہارے تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ بقول شاعر
ہم لوگ حق پرست ہیں لیکن یہی کہ بس
سچ کا علم اُٹھایا، دباؤ میں رکھ دیا
اللہ تعالیٰ نے شرک کو گناہ ِ عظیم قرار دیا اور کئی قوموں کو شرک کرنے کی وجہ سے تباہ اور برباد کر دیا۔ قوم ِ عاد اور ثمود کا قصہ پڑھ کر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی بنیا د پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں کس قدر بھیانک عذاب سے دوچار کیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا حاجت روا سمجھ کر پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ کسی انسان کو بالکل بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کا ایک رب ہو اور وہ رب کمال کا مہربان، خبرگیر بھی ہو اور بندہ پھر بھی بے یقین رہے۔ کیا پھر ہمیں اُس مالک و مختار سے دوستی رکھتے ہوئے اس کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھام لینا چاہیے۔ اگر مومن اس چیز میں کامیاب ہو جائے تو پھر اس جہاں اور دوسرے جہاں کی سرخروئی اُس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ آج کل ہم حصولِ دنیاوی تعلیم کے مقابلے میں اس قدر مگن ہیں کہ ہماری زندگیوں میں دینی تعلیم کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہو کر رہ گئی ہے۔ جس کے باعث ہماری نئی نسل ایک الگ ہی راہ پرگامزن ہے اور یقیناً اس گناہ میں والدین اور اساتذہ برابر کے شریک ِ جرم ہیں۔ ہر انسان کے لیے تعلیم نہایت ضروری ہے لیکن بے فیض علم حاصل کرنا بھی اپنی جانوں پر ظلم کے مترادف ہے۔ بلا مقصد کی ڈگریوں کے پیچھے بھاگ کر ہم وقت تو ضائع کر سکتے ہیں لیکن علم حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نا ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اللہ کریم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہی صرف زندگی کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں خود کو اور نئی نسل کو یہ سبق دینے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام دنیاوی سہارے عارضی ہیں۔ اپنی پریشانیوں کے دُکھڑے دنیا والوں کے سامنے رونے کے بجائے اپنے خدا پر بھروسہ رکھیں اسے بتائیں جو سب کچھ ہم پر بیت رہی ہے یا جس کے گزرنے کا خوف ہمارے دلوں میں کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اصل دوست صرف اللہ کی ذات ہے وہ سب کچھ سننے والا اور سب دیکھنے والا ہے۔ وہی ذات سب سے بڑھ کر جانتی ہے۔ ربِ دو جہاں جو بے شک ہماری شہہ رگ سے بھی قریب تر ہے فرماتا ہے کہ: میں محنت کرنے والوں کو دوست رکھتا ہوں تو بس محنت کیجئے اس ذات کی محبت پانے اور اسکی مخلوق میں محبتیں بانٹنے کے لیے کیونکہ رب ِذوالجلال کی محبت کو زوال نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس عارضی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے دنیا کے پیچھے بھاگتے نہیں تھکتے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں کے اعمال ہی اصل زندگی میں کام آنے والے ہیں۔ جس نے اللہ رب العزت سے دوستی رکھی اس نے فلاح پا لی اور جو دنیاوی سہارے اور قریبی تعلقات کے پیچھے بھاگتا رہے ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنتی گئی۔

تبصرے بند ہیں.