چار آدمی اور فاؤنٹین ہاؤس

20

ڈاکٹر امجد ثاقب سمندر کے بیچوں بیچ ایک ایسا ”لائٹ ہاؤس“ ہیں جو ڈوبتی کشتیوں بھٹکے ہوئے جہازوں اور مسافروں کو روشنی کی نوید اور سمت دیتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہو جینیٹک انجینئرنگ Genetie Engineering والوں کو ڈاکٹر امجد ثاقب اور ایدھی صاحب جیسے لوگوں کا خلیاتی تجزیہ کروانا چاہئے اور ہو سکے تو ”کلوننگ“ سے دوچار ڈاکٹر امجد ثاقب بن جائیں تو ملک کے سارے مسئلے حل ہو جائیں۔ سیلاب میں ڈوبے لوگوں کی خوراک دوائیوں کی فکر ہے تو چھت کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ پاکستان کا قرضہ اتارنے کی سبیل سوچتے رہتے ہیں عرف عام تو اسے دیوانگی کہیے مگر جب ان کی تصنیف ”چار آدمی“ پڑھ لیں تو قصہ چہار درویش کی ساری گرمیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں۔
سرگنگا رام، ملک معراج خالد اور ڈاکٹر رشید چوہدری کی کہانی جو درویش ڈاکٹر امجد ثاقب کی زبانی…… طرز تحریر ایسا ہے کہ منظر کی دھند چھٹتی ہے تو تینوں بزرگ عید والے دن دعا کے لئے اٹھائے ہاتھوں کی برکت سے سامنے تین کرسیوں پر آموجود ہوتے ہیں۔ کسی متروک زبان میں محو گفتگو
بہت پیچھے بہت اندر
کسی گہرے کنوئیں کی تہہ میں
پوشیدہ ہیں کچھ باتیں
کسی احساس سے حرکت سے یہ باہر نہیں آتیں
بہت گہری کھدی ہیں اور
زباں متروک ہے ان کی
اپنی نظم کا ٹکرا یاد آ گیا
متروک زبانوں ناقابل فہم احساس اور اپنے جیسے ایثار والوں کا اثاثہ اپنے کاندھے پہ اٹھائے ہمارے جیسے بے حسوں کے درمیان اپنا کام تسلسل سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا احاطہ خیال میں تینوں بزرگ خوشحال اور محو کلام ہیں ڈاکٹر صاحب اپنی ناخوشی اور ان کی خوشی کا مآخذ جاننا چاہتے ہیں تو وہ انہیں زندگی کا گر بتلاتے ہیں۔
گر سکھا دیں گے بادشاہی کا
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
سرگنگا رام جو بہت زرخیز تخلیقی زین کے ساتھ لاہور کو نیا نقشہ اور منظر دے رہا تھا۔ اس کے لئے ہندو عورتوں کے ستی ہو جانے کا معاملہ اور ہندومت میں ”ودوا“ بیوا کی زندگی کا اجیرن ہونا تکلیف دہ تھا ان کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے سے لیکر سماجی رتبے کی پسپائی سرگنگارام کے لئے ناقابل قبول تھی انگریزوں کی گرفت سے قبل تو ”ستی“کا معاملہ عروج پر تھا جسے 1857ء تلک انگریزوں نے ایکٹ کے ذریعے روکنا ممکن بنایا جہاں سوسائٹی کا پریشر تھا وہاں خود بھی ہندو ناریاں خود کو پوتر اور پتی ورتا ثابت کرنے کے لئے مرے ہوئے پتی کا سرگود میں رکھ کر چتا کو آگ دکھواتیں ویسے بھی ان کے ہاں سات جنم کے رشتے پر یقین اسی پتی کے ساتھ جینے مرنے پر آمادہ کرتا۔
یہ طلسم ٹوٹا تو بھی بیوہ کو اس کا بطور انسان حق ملنا ناممکن تھا۔ اس پسماندگی اور جبرو استبداد کے بالمقابل سرگنگارام کی مثبت سوچ کھڑی تھی دیگر کئی عمارتوں کی طرح ایسی بہت سی خواتین کے لئے بیوہ گھر بنایا گیا۔ جو آج ”فاونٹین ہاؤس“ ہے جب بنا تب بھی کار خیر تھا اور اب بھی ہے۔ سب سماجی ذہنی مریضوں سے بچانے کے لئے غریب بیواؤں کی آماجگاہ تھا اور اب زمانے کے بخشے ہو امراض سے نبرد آزما مریضوں کا مسکن ہے۔
ڈاکٹر رشید چوہدری کو اتفاق سے میں نے اپنی امی کے ہمراہ دیکھا ہے وہ میوہسپتال میں تھے اور فاؤنٹین ہاؤس کا شہرہ ہو رہا تھا یہ ان چند نابغہ روزگار ہستیوں میں تھے جو پورے ملک میں مشہور ہوتے ہیں کوئی ذرا سی بھی دیوانگی کی بات کرتا سارے ازراہ تفنن کہنے ”اینہوں ڈاکٹر رشید چوہدری“ کول لے جاؤ“ ملک میں دھیرے دھیرے ذہنی امراض کا تذکرہ شروع ہوا تھا اس سے قبل مریضوں کو بجلی کے جھٹکے اور سنگلوں سے واسطہ تھا۔ ڈاکٹر رشید چوہدری اپنی سادہ ترین طرز زندگی سے والدین کی دعاؤں کے سبب باہر سے اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں لے کر لوٹے تھے جسے یہاں ان کے اپنے رشتے دار بھی بے کار سمجھتے تھے وہ کہتے بننا ہی تھا تو ہارٹ یا کڈنی کا ڈاکٹر بنتا کسے پتہ تھا کہ ڈاکٹر رشید چوہدری ایک مثال بن جائے گا۔ میں نے بچپن میں دیکھا ماں نے کہا یہ ڈاکٹر رشید چوہدری ہیں ذہنی امراض کے سب سے بڑے ڈاکٹر چھریرے بند دراز قد اور دلکش مثبت شخصیت کے مالک بہت محبت سے ملے بعد ازاں الحمراء میں ان کے بیٹے ہارون رشید صاحب کے بھی لیکچر سنے وہ ہمیں سمجھا رہے تھے کہ آج ہم الحمراء کی چھت تلے بیٹھے خوش گپیاں کر رہے ہیں تو ہمیں کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے کیا وجہ ہے کہ اس وقت ہم کارڈیالوجی وارڈ میں نہیں الحمراء میں ہیں؟ میں ان کی فلاسفی سے شکر کی عجیب منزلوں کو پہنچ گئی اپنی آسائیشوں پر صبر کرنا قناعت کرنا سیکھا۔ اس وقت کیسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہو رہے تھے نیا نیا پاکستان تھا لوگ تازہ ولولہ انگیز جذیوں سے لبریز وطن کے لئے کام کر رہے تھے ڈاکٹر رشید چوہدری نے اس کام کو انجام پر پہنچایا جیسے نیویارک کے پانچ ذہنی امراض سے شفاء یاب ہونے والوں نے آغاز کیا تھا۔
فاؤنٹین ہاؤس کی داستان نیو یارک سے شروع ہوتی ہے دنیا کا سب سے پہلا فاؤنٹین ہاؤس نیویارک میں بنا جب ذہنی امراض کو جو چتے پانچ افراد نے مل کر چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا۔

تبصرے بند ہیں.