میں نے اپنے گزشتہ کالم ”اچھے بُرے افسران“ کی آخری سطر میں دواعلیٰ افسران کامران علی افضل (چیف سیکرٹری پنجاب) اور فیصل شاہکار (آئی جی پنجاب) کے ساتھ حالہی میں ہونے والی اپنی تفصیلی ملاقاتوں کا ذکر کیا تھا، اِسی کالم میں عرض کیا تھا ہمارے بے شماراعلیٰ افسران نے پاکستان کی تباہی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا، مگر پانچوں اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں، ہمارے سامنے کئی اعلیٰ افسران کی مثالیں ہیں جنہوں نے موجودہ کریمینل اور کرپٹ سسٹم کا حصہ بننے کے بجائے اُس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جس کی اُنہیں مختلف صورتوں میں بھاری قیمت بھی چکانا پڑی، اپنی اِس مزاحمت میں وہ کِس حدتک کامیاب ہوئے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے، مگر اپنے حِصے کی جو شمع جلانے کی اُنہوں نے کوشش کی اگر اِسی طرح کی کوششیں ہماری بیوروکریسی کی اکثریت نے کی ہوتیں خُداکی قسم مُلک آج اِس قدرتباہی کا شکار نہ ہوتا…… ہم نے اپنے سیاسی حکمرانوں کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت اِس قدر بدنام کررکھا ہے کہ ملک میں جتنی بھی خرابیاں ہیں اُس کا ذمہ دار لوگ سیاستدانوں کو ہی ٹھہراتے ہیں، خصوصاً جو آفتیں اور قیامتیں زلزلوں اور سیلابوں کی صورت میں اچانک عوام پر ٹوٹتی ہیں عوام کی گالیوں اور بددعاؤں کا نشانہ زیادہ تر سیاسی حکمران ہی بنتے ہیں۔ سیاستدان یا سیاسی حکمران یقیناً اِس کے مستحق ہیں، سیاست کو اُنہوں نے واقعی عبادت سمجھا ہوتا آج اس قدر گالیوں اور بددعاؤں کا نشانہ وہ یقیناً نہ بنتے۔ مگر یہ سیاہی صرف سیاستدانوں کے منہ پر ملنا زیادتی ہے، اِس کی بڑی ذمہ داران وہ ”اصلی قوتیں“ ہیں جو ستر برسوں میں محض اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں لگی رہیں، جتنے اُنہوں نے جائز ناجائز مالی اور ذاتی فوائد اُٹھائے اُس کا ایک فی صدحصہ اُنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ ملک وعوام کے فائدے کا سوچا ہوتا پاکستان کا شمار آج قرض لینے کے بجائے قرض دینے والے ملکوں میں ہوتا، ……جہاں تک موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی میری ملاقات کا تعلق ہے، یہ ایک خوبصورت شام تھی، جو اُن کے ساتھ گزری، وہ انتہائی درویشانہ طبیعت کے حامل ایک کمپلیکس فری انسان ہیں، ایسے لوگ جب عزت مندی کے ساتھ مجھے بلاتے ہیں میں اُن سے مِلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ مشکل مجھے صرف وہاں جانے میں ہوتی ہے جہاں میزبانی کی مسند پر کوئی کم ظرف بیٹھا ہو۔ سو میں آج تک کبھی کِسی ایسے افسر یا حکمران سے مِلنے نہیں گیا جِس کے بارے میں مجھے ہلکا سا بھی یہ احساسہو وہ عہدے کے تکبر میں مبتلا ہے، جناب کامران علی افضل کے ساتھ میرا کوئی معمولی رشتہ نہیں، یہ خونی رشتہ بھی نہیں۔ مگر یہ وہ رشتہ ہے جِس سے لوگ ایک بار بندھ جاتے ہیں پِھر کبھی جُدا نہیں ہوتے۔ یہ عظیم رشتہ گورنمنٹ کالج لاہور کا رشتہ ہے۔ جسے اب ”جی سی یو“ کہا جاتا ہے، جی سی یو کہنا بھی ٹھیک ہے مگر جو مزہ گورنمنٹ کالج لاہور کہنے میں ہے وہ جی سی یو کہنے میں مجھے توآج تک نہیں آیا، چیف سیکرٹری صاحب کے ساتھ زیادہ تر گفتگو گورنمنٹ کالج لاہور سے متعلق ہوئی، وہ وہاں گزرے ہوئے اپنے زمانے کو یاد کرتے رہے، میں اپنے زمانے کو یاد کرتا رہا، ایک زمانہ تھا لاہور میں دو تعلیمی اداروں میں پڑھنا بڑے اعزاز کی بات تھی، پہلے نمبر پر گورنمنٹ کالج لاہور ہوتا تھا۔ دوسرے پر ایف سی کالج لاہورتھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے سے محروم رہنے والے مجبوراً ایف سی کالج میں داخلہ لیتے تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل رہا گورنمنٹ کالج لاہور سے میں پڑھا، اور ایف سی کالج لاہور میں کئی برسوں تک پڑھاتا رہا۔ ایف سی کالج کے اب کیا حالات ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ 2002میں ہم وہاں سے اپنی مرضی سے نکل آئے تھے تب یہ کالج جنرل مشرف نے امریکی چرچ کے سپرد خاک کردیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی بہت عرصے سے میں نہیں گیا، مگر یہاں سے خیر کی خوشبو کِسی نہ کِسی صورت میں روزانہ مجھ تک پہنچتی رہتی ہے۔ اِس کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی زیدی ایک بہت ہی اہل، بڑے محنتی بڑے درویش صفت انسان ہیں، اِس یونیورسٹی کو اُس کے اصل مقام پر بحال رکھنے کے لیے وہ رات دِن کوشاں ہیں۔ عاجزی وانکساری کے جِس مقام پر ہمیشہ میں نے اُنہیں پایا مجھے گورنمنٹ کالج کے عظیم ترین پرنسپلز ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر محمد اجمل یادآتے ہیں۔ اولڈ راوین یونین کے منتخب صدر جہاں زیب نذیر خان بھی کمالات سے بھرپور ایسے پولیس افسر ہیں کم ازکم میں یہ سمجھتا ہوں اولڈ راوین یونین کو پہلی بار ایسا صدر مِلا کہ آئندہ آنے والا ہرصدر اِس عہدے کے حصول کو باقاعدہ ایک اعزاز سمجھے گا …… چیف سیکرٹری پنجاب جناب کامران علی افضل سے بہت سے دیگر اہم موضوعات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں نے اُن سے بالکل یہ نہیں پوچھا آپ نے موجودہ حکومت پنجاب کے ساتھ کام کرنے سے معذرت کیوں کی؟ اپنے تبادلے کے لیے وفاق کو خط کیوں لِکھے؟۔ میں نے اُن سے اِس لیے نہیں پوچھا میں اُن اسباب سے اچھی طرح واقف ہوں جو کسی بھی عزت دار، دیانت دار، اہل، محنتی اور عہدوں کی لالچ سے بے نیاز افسر کے نیک اِرادوں میں رکاوٹ بنتے ہیں اور بالآخر اُس بے چارے کے پاس صِرف ایک ہی راستہ بچتا ہے وہ ایک غلیظ سسٹم سے عزت آبرو کے ساتھ الگ ہوجائے۔ کامران علی افضل نے جو راستہ اپنایا ہے بے شمار افسران کے لیے وہ مشعلِ راہ ہے، مگر یہ مشعل روشن کرنا بڑے دِل گُردے کا کام ہے کیونکہ عہدوں کی لالچ میں عہدوں کی ریس کو داؤ پر لگانے والوں کی لائنیں لگی ہیں، …… پنجاب میں اِس وقت تقریباً دس وزرائے اعلیٰ ہیں۔ اگلے کِسی کالم میں اُن دس کے نام بھی میں لِکھ دُوں گا کہ کِس طرح سرکاری معاملات خصوصاً تقرریوں تبادلوں میں اندھا دھند مداخلت وہ کرتے ہیں، اِن حالات میں کوئی عزت دار افسر کام کیسے کرسکتا ہے؟ البتہ روایتی چاپلوسوں وخوشامدیوں کے لیے یہ سنہرا دور ہے۔ کامران علی افضل جہاں رہیں گے عزت سے رہیں گے، یہ اُن کی روایت نہیں اُن کی فطرت ہے، جہاں بھی رہیں گے ملک اور عوام کی خیرخواہی کرتے رہیں گے۔ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتے رہیں گے۔ اِس کی تازہ مثال یہ ہے حالیہ ملاقات میں ایک اجتماعی مسئلے کی میں نشاندہی کررہا تھا۔ میری بات ابھی مکمل ہی نہیں ہوئی تھی اُنہوں نے فون اُٹھایا اور متعلقہ سیکرٹری سے کہا ”تین یوم کے اندر اندر یہ مسئلہ حل کرکے مجھے بتائیں“…… اِس کے علاوہ جوکچھ سیکرٹری صاحب سے اُنہوں نے کہا اُن کے ایک ایک لفظ میں یہ درد تھا کہ لوگوں کے درد کیوں دُور نہیں ہورہے؟…… ایسے لوگ جہاں بھی رہیں دِلوں میں رہتے ہیں۔ پنجاب سے اگر وہ گئے اِس کا نقصان اُنہیں نہیں پنجاب کو ہوگا!!
تبصرے بند ہیں.