کینسل مائی لاسٹ اناؤنسمنٹ

11

سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر سیاست نہیں کر سکتے۔جنرل ضیاءCMLA تھے کہ جس کا مطلب تھا Chief Martial law Administratorلیکن جنرل ضیاء جس تواتر کے ساتھ اپنی کہی ہوئی باتوں کی خود اپنے ہی قول و فعل سے نفی کرتے تھے تو مغربی میڈیا طنزاََکہتا تھا کہ CMLAکا مطلب Cancel My Last Annoucementہے یعنی میرے گذشتہ بیان کو منسوخ سمجھو۔ پاکستان کی تاریخ میں جنرل ضیاء کے بعد عمران خان دوسری شخصیت ہیں کہ جن پر Cancel My Last Annoucement فٹ بیٹھتا ہے اس لئے کہ جنرل ضیاء نے بھی جھوٹ بولے تھے اور وعدہ خلافیاں بھی کی تھیں لیکن اپنے جھوٹ کو ”یو ٹرن“ کا تقدس دے کر ان کا تحفظ نہیں کیا تھا جبکہ خان صاحب نے تو اپنے ہر جھوٹ اور وعدہ خلافی کو ”یو ٹرن“ کہہ کر اسے عظمت کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی ہے اور ہر بڑے انسان کی کامیابی کی بنیاد ہی اسے قرار دیا ہے۔ میں قرض نہیں لوں گا اور اگر قرض لے لوں تو خود کشی کر لوں گا اور پیٹرول چالیس روپے لیٹر، گھر پر سائیکل سے آیا جایا کروں گا، جس دن تحریک انصاف کی حکومت بنی اسی دن پاکستان کی عوام دیکھے گی کہ بلڈوزر سے ایوان صدر وزیر اعظم ہاؤس، گورنر ہاؤسز اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز کی دیواریں گر رہی ہوں گی اور ان میں یونیورسٹیز بنائیں گے اور انھیں عوام کے لئے کھول دیا جائے گا۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں وعدے خان صاحب نے عوام سے کئے لیکن اب کچھ نئی باتیں ”میں جب وزیر اعظم بنا تو چیف کو توسیع نہیں دوں گا 2010۔ملک حالت جنگ میں ہے اس لئے باوجوہ کو توسیع دے رہے ہیں 2019۔میری سب سے بڑی غلطی باجوہ کو توسیع دینا ہی ہے 2022۔باجوہ کو مزید ایک سال کی توسیع دے دینی چاہئے2022“۔یہاں ایک بات کا اعتراف کہ کہنا ہم نے بھی یہی تھا لیکن ابھی کالم شروع کیا تھا کہ ایک واٹس ایپ آ گیا تو ہم نے من و عن اس کے الفاظ نقل کر دیئے۔
بھائی لوگوں کا دل کرے تو خان صاحب کو جتنا چاہے بڑا لیڈر بنا دیں بلکہ کچھ نے تو انھیں یقینا مہاتما بنا رکھا ہے لیکن ان کے طرز سیاست کو دیکھ کر یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک سطحی سیاسی لیڈر سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ان کی جو مقبولیت ہے یا ان کی جو سیاسی حیثیت ہے اس میں کس حد تک ان کی
اپنی ذات کا عمل دخل ہے اور کس حد تک بنانے والوں کی مہربانی ہے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہیں لیکن جہاں تک ان کی اپنی ذات کی بات ہے تو ان کی پوری سیاسی زندگی کو دیکھ لیں تو اس میں کارکردگی کے بجائے مکار کردگی کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آئے گا۔موجودہ سیلابی صورت حال کی مثال لے لیں کہ خیبر پختون خوامیں بہت زیادہ تباہی ہوئی یہی حال گلگت  بلتستان اور پنجاب کے تین اضلاع کا ہے اور ان سے بھی زیادہ تباہی بلوچستان میں ہوئی ہے لیکن آپ نے غور کیا ہو گا کہ جہاں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں پر سیلاب زدگان کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کیا کر رہی ہے اس کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں اس لئے کہ کچھ ہو ہی نہیں رہا لیکن سارا زور سندھ حکومت کے کاموں میں کیڑے نکالنے پر ہے۔ چونکہ اپنی کارکردگی کچھ نہیں اور دوسرے جو کر رہے ہیں ان میں کیڑے نکالنا ہی تحریک انصاف کی اصل حکمت عملی رہی ہے اسی لئے ہم نے کہا ہے کہ ان کی سیاست کا دارو مدار کارکردگی پر نہیں بلکہ مکار کردگی پر ہے جس کے ہر ہنر سے خان صاحب اور ان کی جماعت کے لوگ بڑی اچھی طرح واقف ہیں۔
کالم کے شروع میں ہم نے جو سوال اٹھایا کہ کیا عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے بغیر سیاست نہیں کر سکتے تو یہ بلا وجہ نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی کی سیاسی تاریخ کو اگر دیکھیں تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کی سیاست میں انتہائی اہم کردار رہا ہے بلکہ سب سے زیادہ اہم کردار رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرنے والوں کا سیاسی وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ سیاسی کردار پر دو رائے ہو سکتی ہے لیکن یہ جماعت ایک عرصہ تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتی رہی ہے اور اس دوران یہ جماعت پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت تسلیم کی جاتی تھی۔ اس کے بعد مسلم لیگ نواز بھی مشرف دور میں اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر رہی اور خود اپنے دور حکومت 2013 سے 2018 تک معتوب جماعت کے طور پر تصور کی جاتی تھی اور گذشتہ 47سال میں پاکستان پیپلز پارٹی نے تو جنرل ضیاء کے بعد صرف جنرل جہانگیر کرامت کو ہی چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا ہے تو کیا اس کی سیاست ختم ہو گئی ہے کہ خان صاحب کو نئے آرمی چیف کی تقرری چین نہیں لینے دے رہی۔خان صاحب کو جس طرح موجودہ حکومت کے ہاتھوں نئے آرمی چیف کی تقرری پر پڑتھو پڑے ہوئے ہیں اس سے تو ان تمام باتوں کی تصدیق ہوتی ہے کہ جن کا تعلق نومبر کے مہینہ میں فیض یاب ہونے سے ہے۔ کیا وجہ ہے کہ خان صاحب ہر حالت میں چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری ان کے ہاتھوں سے ہو۔یہ بات ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ الیکشن میں وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو کر دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔اس کا تو صاف مطلب یہ ہوا کہ خان صاحب آرمی چیف کے حوالے سے جو الزام دوسروں پر لگاتے ہیں در حقیقت اپنے تئیں وہی کام وہ خود کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات اس لئے بھی قرین قیاس ہے عمران خان کی اب تک کی سیاست یہی رہی ہے کہ جو کام وہ خود کرتے ہیں اس کا الزام پورے دھڑلے کے ساتھ دوسروں پر لگا دیتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ خان صاحب کم و بیش اپنے ہر خطاب میں حکومت پر خوف کی سیاست کا الزام لگاتے ہیں لیکن جس طرح وہ بیورو کریسی کو دھمکاتے ہیں اور ہر جلسہ میں جس طرح انھیں تڑیاں لگاتے ہیں تو اس سے تو پتا چلتا ہے کہ خوف کی سیاست کوئی اور نہیں بلکہ خود خان صاحب کر رہے ہیں اور اسی طرح بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق انھوں نے اپنے مخالف سیاستدانوں کو جیل میں رکھا لیکن جس طرح ایک شہباز گل کے جیل جانے پر واویلا کیا گیا تو اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف جو خود کرتی ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لئے الزام دوسروں پر لگا دیتی ہے یعنی اگر جہانگیر ترین جہاز بھر بھر کر ارکان اسمبلی لے کر آئیں تو وہ دوسروں کی وکٹیں گرنا ہے لیکن اگر تحریک انصاف کے ارکان مخالف کیمپ میں جائیں تو وہ لوٹا کریسی اور چوری کے مال سے خرید و فروخت ہے۔ پہلے اگر شک تھا تو اب یقین ہو چلا ہے کہ کچھ نہیں بلکہ کچھ سے بہت زیادہ ان کے دور حکومت میں گڑ بڑ ہوئی ہے کہ جس کا خوف انھیں کسی پل چین نہیں لینے دے رہا اور یہی وجہ ہے کہ وہ فوج عدلیہ اور سول بیورو کریسی ہر کسی کو دھمکا کر خوف میں مبتلا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو گا اور قوی امید ہے کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد پاکستان کا سیاسی ماحول تحریک انصاف اور خان صاحب کی سیاست دونوں شانت ہو جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.