تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

42

میں جس کمرے میں یہ الفاظ تحریر کررہا ہوں کیا معلوم یہاں آج سے سو سال قبل کوئی چٹیل میدان تھا یا لہلہاتے کھیت؟ جانے قبرستان تھا یا کسی کا گھر؟ اور نجانے آج سے سو سال بعد اس جگہ پر کوئی موجود ہو گا یا رہتا بھی ہو گا یا نہیں؟کسے معلوم گرین ہاؤسز کی وجہ سے دنیا کے سب گلیشیئر پگھل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے؟ بڑے بڑے شہر اس میں ڈوب جائیں اور یہاں بسنے والے کروڑوں انسان  پیدا ہوتے رہیں اور مرتے رہیں۔
اگست یعنی ماہ سوز و غم۔ ہمارے خاندان کیلئے اگست شائد زندگی سے آزادی کا مہینہ بن چکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ کسی کلیجہ چیرنے والے غم سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہوں گے؟ کیسے کسی صدمے سے نمٹتے ہیں؟ مسلسل روتے ہیں، سسکتے ہیں یا آہستہ آہستہ سلگتے رہتے ہیں؟ مگر جب 25اگست 2016ء کو میرے رفیق مجھ سے بچھڑے تو میں نے ہمیشہ کی طرح اس غم کے ساتھ جینے کا اپنا ہی ایک طریقہ ایجاد کر  لیا، یعنی ان کی یادوں سے فرار کی کوشش۔مجھے رونا بہت آتا ہے مگر اکثر میری آنکھیں برستی نہیں اوردل پر بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔ میرا طریقہ یہ تھا کہ میں نے ابو کی یادوں سے بچنے کی ناکام کوشش شروع کردی، جن موضوعات پر ہم اکثر گفتگو کیا کرتے تھے، فلسفے کی جو گتھیاں ہم سلجھایا کرتے تھے وہ میں نے ان سلجھی چھوڑ دیں (میں خود کو ہمیشہ عزت دینے کی کوشش کرتا ہوں)۔ دقیق سیاسی معاملات پر سوچنا چھوڑ دیا، ٹی وی پر ابو کے ساتھ جو نیوز شوز دیکھا کرتے تھے وہ چھوڑ دئیے، جو میوزک ہم دوران سفر ساتھ سنا کرتے تھے ان تمام گانوں سے میرا ناتا ٹوٹ گیا، جن سڑکوں پر میں شارٹ کٹ ڈھونڈا کرتا تھا ان سڑکوں پر جانا چھوڑ دیا۔ اکثر ان سے محبت کرنے والے مجھے ملتے اورخیر سگالی جملوں کے بعد ان کا طویل ذکر شروع کردیتے تو میرا دل جیسے کٹ سا جاتا اور میں اپنے مزاج کے خلاف بدلحاظی سے موضوع بدلنے کی کوشش کرتا۔
یہ بھی تو کل کی بات ہی لگتی ہے جب چند سال قبل چاچو مالک نے علی ٹاؤن قلعہ ستار شاہ میں ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی، انوار مدینہ اسلامک سکول میں اپنے بے لوث ساتھی حاجی محمد اسلم کے ساتھ مل کربچوں کی مفت تعلیم کا بیڑا اٹھایا۔ مجھے ان کا فون آیا تو اسی چہکتی اور زندگی سے بھرپور آواز میں کہنے لگے ”تسی وی بڑے سینئر صحافی او، تہاڈا ناں وی مہمانوں وچ پایا اے“ (آپ بھی بڑے سینئر صحافی ہیں، آپ کا نام بھی مہمانوں کی لسٹ میں ڈالا ہے)۔یادوں کو نظر انداز کرناممکن نہیں ہوتا ہے، آپ وقتی طور پر ان کا اثر زائل کر سکتے ہیں لیکن بہرحال یہ ایک زندہ حقیقت بن کر آپ کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے، رواں سال بھی ماہ اگست غم کے ساتھ اسی آنکھ مچولی میں گزر رہا تھا کہ کسی بھی ڈپریشن میں جائے بغیر اس مہینے کو گزار دیا جائے، 24اگست کو ہمارے خاندان کی سمت متعین کرنے والے وژنری دادا ابوایم عبدالغنی غوری کی برسی تھی، 25اگست کو میرے رفیق اس دنیا سے گئے جبکہ 26اگست کو دادا ابو کے چھوٹے بھائی ایم عبداللہ غوری کا یوم وفات تھا۔ یہ دن غموں اور سوچوں کے پہاڑ تھے مگر اس سال ماہ اگست نے ہمیں ایک اور غم کا تحفہ دینا تھا۔ 21اگست کو نعیم اور عظیم صاحب بمعہ اہل و عیال کھانے پر تشریف لائے، ہم گھر کے دروازے پر لفنٹروں کی طرح سگریٹ کے کش لگا رہے تھے کہ فون آیا،چاچو مالک کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ طیب کو فون کیا تو اس نے فون بزی کردیا، تقریباً آدھے گھنٹے بعد طلحہ کا فون آیا اور اس کے مسلسل رونے سے معلوم ہو گیا کہ چاچو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔صوفی عبدالمالک، درویش منش عالم دین ٗامام مسجد، پیاری اور مثبت باتیں کرنے والے۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
لمحہ موجود جس کو حال کہا جاتا ہے اس کا دورانیہ شاید ایک سیکنڈ سے بھی کم ہوتا ہے، مستقبل وہ ہے جو ابھی آنا ہے، معلوم نہیں آنے والے دن کیسے حالات لے کر آئیں لیکن ماضی ہر انسان کے پاس ایک ایسا اذیت بھرا اثاثہ ہوتا ہے جو ایک اعمال نامے کی طرح ہر وقت ساتھ جڑا رہتا ہے۔انسان کی عمر جیسے جیسے زیادہ ہوتی جاتی ہے،بچھڑنے والوں کی یادیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں۔ اب تو جان من لاہور بھی یادوں سے بھر گیا ہے کہ ہر سڑک پر کسی نہ کسی بچھڑنے والے کی یاد پڑی نظر آتی ہے اور آپ کتنی سڑکیں بدل سکتے ہیں، کتنے راستے بدل سکتے ہیں؟ زندگی کا وہی اذیت ناک فلسفہ میری جان کو آ جاتا ہے جہاں مجھے گھر میں سب چلتے پھرتے میرے جان سے پیارے پردیسی لگنے لگتے ہیں۔ آج ہم سب ایک ساتھ ہیں، کل کیا معلوم کس نے کب بچھڑ جانا ہے؟یہ وہی دورہ ہے جب میری ذات کا منفی حصہ اپنی پوری شدت سے باہر آ جاتا ہے اور میں اپنے سب پیاروں کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگتا ہوں کہ کل انہیں میرے بچھڑنے کا غم سہنا پڑے گا یا مجھے ان کو جدا کرنا پڑے گا۔ ہائے! یہ سب میں کیسے سہہ پاؤں گا یا مجھ سے پیار کرنے والے کیسے برداشت کر سکیں گے۔ بالکل ویسے ہی جب ابو اس دنیا سے چلے گئے اور میں سوچتا رہا کہ والدین جب اولاد کو دنیا میں لاتے ہیں تو کیا یہ نہیں سوچتے کہ وہ ہماری جدائی کا گھور غم کیسے برداشت کریں گے؟ جب وہ اپنے ہاتھوں سے ہمیں قبروں میں اتاریں گے تو انہیں کیسا محسوس ہو گا؟۔ مجھے اکثریہ خیال مار ڈالتا ہے کہ میرے مرنے پر مجھ سے محبت کرنے والے کس کرب سے گزریں گے؟
کیسے اس دنیا میں اتنے دکھوں کے ساتھ زندہ رہا جاتا ہے؟۔ کیسی زندگی ہے اور کیسا اس زندگی کا گورکھ دھندہ؟۔ کیسے شب و روز ہیں جہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے موجودہ اور آنے والے دکھوں کا بوجھ لے کر خوش رہنے کی مصنوعی کوشش کی جاتی ہے۔ جہاں آپ سے پیار کرنے والا ہر انسان درحقیقت ہر آنے والے دن آپ سے دور ہوتا جا رہا ہے اور ایک دن آپ کی نظروں سے دور ہو جائے گا۔جہاں میری چاہت ہے کہ امی تاعمر میرے سامنے رہیں، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی رہیں۔ میرے پیارے چاچو نجم، خالد، وسیم، انعام، اکرام،احتشام،سہیل اور شاکر مجھے ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ جہاں میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ کاش کبھی میں اسی طرح صبح نو بجے اپنے دفتر حاضری لگانے کے بعد ابو کو ان کے دفتر چھوڑنے جاؤں، وہ میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے پائپ سلگا رہے ہوں، میں اپنے لایعنی فلسفے سے ان کی برداشت کا امتحان لیتا رہوں اور وہ سارے راستے بڑی ہمت سے میرے بچگانہ نظریات کو برداشت کرنے کے بعد آخر میں صرف ایک جملہ بولیں۔ ”اویس صاحب!آج کیلئے اتنی بکواس کافی ہے“۔

تبصرے بند ہیں.