کارزار ِ سیاست کا ایک ضدی بچہ

8

وہ بھی کیا خوب طفل ہے، مانتا ہی نہیں۔میں نہ مانوں کی گردان کرتا ہی چلا جاتا ہے گویا کہہ رہا ہو
اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
ہر لحظہ خیال رکھوں صرف اتنا
بیٹھ جاؤں بھی تیری اور اُٹھ جاؤں بھی تیری
یہ طفل اتنا ضدی ہے کہ کہتا ہے کہ کھیل تو رچاؤں گا لیکن اپنے شرائط پر۔کھیل کے تمام قوائد و ضوابط میری ہی منشاء و مرضی پر ہونگے۔کھیل میں اگر آؤٹ ہوجائے تو یہ طفل تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیتا ہے۔ہر گیند پر چھکا لگانے کی سعی لا حاصل کرتا ہے۔ ایسا کرنے میں اگر ناکام ہوجائے تو اپنا سارا غیض و غضب فیلڈر پر نکالتا ہے۔ گویا کہ اس ناکامی کا سارا ذمہ دار پیچارہ فیلڈر ہی ہے۔خو ب شوروغوغا مچا کر امپائر پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ اسکی مرضی کا فیصلہ دے اور اگر امپائر ایسا نہ کرے تو یہ طفل باقائدہ ’اَ ت‘ مچا دیتا ہے۔ امپائر کو غدار تک کے القابات نوازنے سے اجتنا ب نہیں کرتا۔اور اگر شکست کھا جائے تو ماننے سے صاف انکار کر دیتا ہے کہتا ہے میرے خلاف سازش ہوئی ہے۔ ہے نہ ویسے ایک ضدی بچہ۔زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب یہ ضدی بچہ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگاتا نظر آتا تھا۔ اس کو تو چھوڑیں اسکے پیچھے چلنے والے بچوں نہ تو اس سے بھی زیادہ دھینگا مشتی مچا رکھی تھی۔ان کے اذہان سے تو یہ بات بھی جلد محو ہوچکی تھی کہ یہ ضدی بچہ ان سے پہلے کون سے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کر چکا ہے۔ ضدی بچے نے نعرہ لگایا کہ اس بار امپائر تو ہی ہے لیکن اصل سازش سٹیڈیم سے باہر بیٹھے ہوئے ’ناہنجار‘واشنگٹن نہ کی ہے۔ وہ آؤٹ نہیں تھا اور نہ ہی کیا جاسکتا تھا یہ تو سارا کھیل امپائر نے اسی ’ناہنجار‘ کے اشارے پر کھیلا ہے۔ پھر کیا تھا اس کے حواری بچے بھی اسی بات کا خوب ڈھول پیٹنے لگے۔ ویسے یہ بچہ ہے بہت ذہین،جانتا ہے کہ جھوٹ تو اتر سے بولو تو ایک وقت آتا ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گماں ہونے لگتا ہے۔ یوں اس جھوٹ کا ڈھول خوب پیٹا گیا۔اس کے نام لیوا دیگر بچے جب اسکی چکنی چپڑی باتوں میں آکر یہی راگ گلا پھاڑ پھاڑ کرالاپنا شروع ہوئے تو ضدی بچے کو یہ احساس شدت سے ہونے لگا کہ اس
بار لائن غلط ہی نہیں بلکہ بہت غلط لے لی ہے۔ ’ناہنجار‘ واشنگٹن اور امپائر اس جھوٹ،دروغ گوئی اور الزام تراشی پر سخت نالاں ہوچکے ہیں۔ انکے تیور ٹھیک نظر نہیں آرہے۔ پہلے تو انہوں نے کوئی سازش نہیں کی لیکن اب یہ اگر یوں ہی ناراض رہے تو وہ اسے نہ صرف کھیل بلکہ سٹیڈیم ہی سے نکال باہر پھینکیں گے اور سارا کھیل اب اس کی مخالف ٹیم کھیلنا شروع کردے گی،تو پھر اسے اپنی غلطی کا ادراک ہونے لگا۔ اور یوں اس ضدی بچے نے نہ صرف ناہنجار ’واشنگٹن‘ سے خفیہ رابطے شروع کیے کہ کسی طرف معافی تلافی‘ ہوجائے بلکہ امپائر کی بھی منت سماجت شرو ع کردی کہ اسے کھیل سے نہ نکالا جائے۔ لیکن اب کیا کریں جب چڑیا جگ گئیں کھیت۔ جب سانپ نکل جائے توپھر بھلا لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ضدی بچے کو اب معافی نہیں ملنی۔ چاہے ٹانگوں سے لپٹ جائے۔
پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے امریکہ بہادر کو منانے کے لئے باقاعدہ ایک لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کررکھی ہیں جس کے لئے اس فرم کو ڈالروں میں بھاری ادائیگی بھی کی جاچکی ہے ۔ ایسے میں نہ صرف انکے خیبر پختونخوا میں حکومتی عمائدین بعض امریکی عہدیداروں سے ملاقات کرکے انہیں عمران خان کی جانب سے’معافی تلافی‘ کی درخواستیں کرچکے ہیں بلکہ عمران خان کی ایک اہم سابق امریکہ عہدیدار رابن رافیل سے خفیہ ملاقات جس کی قبل ازیں ان کے ’کار ِخاص‘ فواد چوہدری باقاعدہ تردید کرچکے ہیں،  اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انقلابیوں کے لئے امریکہ کے خلاف عمرانی نعرہ محض ایک سیاسی سٹنٹ تھا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ بلکہ اپنے ایک انٹرویو میں موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے لئے ایکسٹینش دینے کی بات کرکے عمران خان اپنے پہلے بیانیے سے بھی یو ٹرن لے چکے ہیں۔’انقلابیوں ‘ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جان لیں کہ عمران خان کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے،اس کے لئے وہ کچھ بھی کر اور کہہ سکتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اس سے پہلے وہ کیا کہہ رہے تھے۔ ویسے سینئر صحافی ایاز میر نے بھی خوب ہی کہا ہے۔ انکے مطابق   ’انقلابیوں‘ کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے۔ اب رہی پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی بات تو وہاں چیف سیکرٹری کامران علی افضل ایک بار پھراپنے عہدہ سے سبکدوش ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ صوبہ کے انتظامی معاملات خاص طور پر پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے زیرِسایہ سیاسی قیادت کی بے جا مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انکے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی پنجاب فیصل شاہکار کو بھی ان دنوں اس سے ملتی جلتی صورت حال کا سامنا رہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ صوبہ میں بیوروکریسی ہو یا پولیس دونوں جگہ تقررو تبادلے بالواسطہ یا بلا واسطہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی آشیر باد ہی سے ہورہے ہیں جہاں اولیت میرٹ کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کو دی جارہی ہے۔ خاص طور پر صوبہ کی ایک اہم شخصیت کے فرزند اس حوالے سے اپنا کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا مقصد اگلے الیکشن سے قبل ہر جگہ ق لیگ اور پی ٹی آئی کے وفاداروں کی فوج ظفر موج کو تعینا ت کرنا ہے۔مخالفین کے لئے صوبہ میں کوئی جگہ نہیں۔ حال ہی میں ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور کامران عادل اور دیگر متعدد پولیس افسران کو اس لئے تبدیل کیا گیا کیونکہ انہوں نے خلاف ضابطہ اور خلاف قانون کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔تعینات ہونے والے افسران اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب، انکے اہل خانہ اور انکے قریبی ساتھیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل تبدیل ہونے والے افسران نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے مخالفین کی ناجائز مقدمات میں پکڑ دھکڑ سے انکار کیا تھا۔ پنجاب بالخصوص صوبائی دارالحکومت میں جرائم کے خطرناک حد تک بڑھنے اور انتظامی امور کے بگڑنے کی ایک بڑی وجہ من پسند جگہوں پر کی جانے والی یہی تقرریاں بتائی جاتی ہیں۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تھانیداروں اور اسسٹنٹ کمشنر تک کی تقرریاں بھی سیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں۔گجرات کے رہائشیوں کو ان نوکریوں میں خاص اولیت دی جارہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.