سیاست کیا کہہ رہی ہے؟

22

ہماری قومی سیاست کہاں جا رہی ہے؟ شاید ہی کوئی اس بارے میں وثوق کے ساتھ بات کر سکے کیونکہ یہاں طریقے سلیقے سے کچھ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ہو رہا ہے۔ اپریل 2022 سے تھوڑا پہلے تک عمران خان کی حکومت، اپنی نااہلی اور ناکارکردگی کے باعث نامقبولیت کے ریکارڈ قائم کر چکی تھی۔ عمران خان فیصلہ سازی میں اپنی نااہلیت کا ریکارڈ قائم کر چکے تھے ان کے ایم این ایز اس بارے میں کھلے انداز میں باتیں کرتے سنائی دے رہے تھے کہ وہ اپنے حلقوں میں جا کر عوام کے ردعمل کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی میں گروہ بندیاں بھی سننے میں آ رہی تھیں۔ عمران خان آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے مکر بھی چکے تھے یہی وجہ ہے کہ نومبر 2021 میں ملنے والی قسط روک دی گئی تھی پاکستان آئی ایم ایف تعلقات میں شدید سردمہری پیدا ہو چکی تھی۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں وسیم اکرم پلس کی کارستانیاں زبان زدعام تھیں۔ کارکردگی تو صفر سے بھی نیچے تھی کرپشن اور اقرباپروری کے چرچے عام تھے۔ صوبائی اسمبلی ممبران بزدار سے سخت نالاں تھے۔ تنظیم میں گروہ بندیاں تھیں۔ عثمان بزدار گروپ اور ان کا مخالف گروپ، مخالف گروپ میں بھی گروہ بندی اور اس طرح ناکارکردگی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری تھا۔ اس دوران ضمنی انتخابات میں بھی پارٹی کی مایوس کن کارکردگی اظہر من الشمس ہو چکی تھی۔ ماہرین بجاطور پر کہنے لگے تھے کہ الیکشن 2023 میں پی ٹی آئی بری طرح شکست سے دوچار ہو گی۔
دوسری طرف اپوزیشن جوتیوں میں دال بٹ رہی تھی۔ آصف علی زرداری ایک طرف اپوزیشن اپوزیشن کھیل رہے تھے تو دوسری طرف مقتدر حلقوں کے ساتھ قربتیں بڑھا رہے تھے۔ انہوں نے سینٹ کے انتخابات میں اپنے ہنر دکھا کر مقتدر حلقوں کے ساتھ معاملات درست کرنے کی کامیاب کاوشیں کی تھیں سینٹ چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر کرتب دکھا کر اپنا ڈپٹی چیئرمین منتخب کرا کر ثابت کر دیا تھا کہ ”ایک زرداری سب پر بھاری“ ہے۔ مسلم لیگ ن کو مقدمات میں پھنسا دیا گیا تھا۔ شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، احسن اقبال وغیرہ لیڈران پر نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات قائم کئے جا چکے تھے رانا ثناء اللہ پر ہیروئن سمگلنگ کا خوفناک مقدمہ بھی قائم کر دیا گیا تھا انہیں جیل میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔ ایسے حالات میں عمران خان ”جو چاہتے کر رہے
تھے“ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ انہیں اپنی طاقت پر اس قدر اعتماد اور اطمینان تھا کہ انہوں نے آرمی چیف کی طرف سے اعلان کردہ، جنرل فیض حمید کے تبادلے کو نوٹیفائی کرنے میں خاصا وقت لیا اس طرح وہ یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے کہ وہ سپریم ہیں اور انہوں نے ایسا کچھ کر بھی دکھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کی کاوشوں کے نتائج انہیں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ وہ اب گلی گلی، شہر شہر پھر رہے ہیں اور اپنی حکومت کے خاتمے کو ایشو بنا کر پیش کرنے میں مگن ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپریل 2022 اپوزیشن نے دھماکہ کر دکھایا۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ 20 اراکین نے اپنی جماعت کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ اپوزیشن نے ان اراکین کے ووٹوں کے بغیر، اتحادیوں کو توڑ کر تحریک عدم اعتماد کامیاب کرا لی اور پھر شہباز شریف کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن نے حکومت بھی قائم کر لی ایسا ہی کچھ پنجاب میں ہوا۔ حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ بن گئے لیکن یہ معاملہ زیادہ دیر چل نہ سکا اور بزدار تو رخصت ہو گئے لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر بلکہ پی ٹی آئی نے چودھری پرویز الٰہی کو ساتھ ملا کر پنجاب میں اپنی حکومت قائم کر لی۔
حالات جاریہ میں ہماری سیاست کچھ اس قدر گردآلود لگ رہی ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ عمران خان جس طرح اپنی باتوں سے پھرتے چلے جا رہے ہیں ویسے تو یوٹرن ان کی عادتِ ثانیہ ہی نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ انہیں اپنی کہی ہوئی باتوں سے پھرنے یا مکرنے میں کسی قسم کی شرمندگی یا ندامت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ اپریل 2022 میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے جو بیانیہ ترتیب دیا تھا اس میں گزرے 5/6 ماہ کے دوران اتنی تبدیلیاں کر چکے ہیں کہ ہمیں دقت محسوس ہوتی ہے کہ یہ جان سکیں کہ ان کا موجودہ بیانیہ کیا ہے۔ امریکی سازش کا بیانیہ تو کہیں ہوا ہو چکا ہے اب وہ امریکیوں کے ساتھ شیروشکر ہی نہیں ہو چکے ہیں بلکہ انہیں اپنی ”تعلقات عامہ“ اور ”تعلقات خاصہ“کی مہم جوئیوں کے لئے باقاعدہ اپنے ساتھ ملا لیا ہے امریکی فرم ان کے لئے کام کر رہی ہے۔ امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں، کھلے عام بھی اور خفیہ بھی ہو رہی ہیں، انہیں یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف نہیں ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سالارِ اعلیٰ کی تعیناتی اور موجودہ سالارِ اعلیٰ کی ایکسٹینشن کے حوالے سے بیان کو اپنی یوٹرن پالیسی کو وی ٹرن میں تبدیل کر دکھایا ہے۔ اب عمران خان آزادانہ طور پر تقاریر کریں گے۔ دورے کریں گے۔ گالم گلوچ جاری رکھیں گے۔ اپنے مطالبات دہراتے رہیں گے لیکن جاری نظام پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ اس کے خلاف مہم جاری رکھیں گے۔ بیانات بھی دیتے رہیں لیکن کوئی ایسا عملی قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے سسٹم ڈی ریل ہو۔ فوری انتخابات کا مطالبہ بھی جاری رہے گا۔ چیف الیکشن کمیشن کو بھی نشانے پر رکھا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ یعنی اپنی افتادِ طبع کے مطابق وہ جیسا چاہیں کرتے رہیں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن کے حوالے سے زیادہ تفصیلات سامنے نہیں ہیں کہ وہ کیا کرے گی؟ حکومت کرنے کے علاوہ وہ کیا کرے گی یا کیا کر سکتی ہے؟ اور کیسے کرے گی؟ ن لیگی قیادت کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا صرف انہیں اسلام آباد کی حکومت کے ساتھ ہی بہلایا جاتا رہے گا یا ان کے دیگر معاملات زیربحث اور زیرالتوا مقدمات کا فیصلہ بھی ہو گا۔ اور اگر ہو گا تو کیا ہو گا ”جلاوطن قیادت“ کو کیا واپس آنے کی اجازت دے دی گئی ہے؟ اس کے ساتھ دیگر معاملات طے پا گئے ہیں یا یونہی باتیں جاری رہیں گی۔

تبصرے بند ہیں.