توہین عدالت کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

98

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس فرد جرم عائد کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق سلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے مطابق عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان 2 ہفتوں بعد یعنی 22 ستمبر کو عدالت پیش ہوں گے اور ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کاکہنا ہے کہ عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔
قبل ازیں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا 5 رکنی بینچ عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی جس دوران روسٹرم پر زیادہ وکلا آنے پر چیف جسٹس نے دیگر وکلا کو بیٹھنے کا کہہ دیا جس کے بعد عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کئے۔
حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ عدالت میں گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا تھا، جواب گزشتہ سماعت پر عدالت کی آبزرویشنز کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے، ہم نے جواب کے ساتھ سپریم کورٹ کے 2 فیصلے بھی لگائے ہیں، ہم چاہتے ہیں اب توہین عدالت کیس کو بند کردیا جائے۔
وکیل حامد خان نے دلائل کے دوران دانیال عزیز کیس کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، گزشتہ سماعت کے حکم نامے میں عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات کا حوالہ دیا۔
حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات سے مختلف ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل، سول اور کریمنل تین طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی،انہوں نے عدالت کے کردار پر بات کی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان کی کریمنل توہین ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں، سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا، فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے ، ہم نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، عدالت پر تنقید کریں، ہم سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے، کرمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت میں دانست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے، اسے نہیں دیکھا جاتا، کریمنل توہین عدالت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ بات کرنے کا مقصد کیا تھا، ہم نے آپ کو سمجھایا تھا کہ یہ کریمنل توہین عدالت ہے، آپ کا جواب حتمی تھا اور ہم نے تفصیلی پڑھا، آپ کو ہدایت کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب داخل کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کیلئے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اس کا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلاءتحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، ہم نے پچھلی بار سمجھایا تھا لیکن آپ کو احساس نہیں ہوا، کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟آپ نے جواب میں شہباز گل پر تشدد کو ’مبینہ‘ نہیں لکھا، معاملہ ابھی بھی عدالت میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے جوابات میں توہین عدالت کو جسٹیفائی کر رہے ہیں جس پر حامد خان نے کہا کہ جسٹیفائی اور وضاحت دینے میں فرق ہوتا ہے، میں وضاحت دے رہا ہوں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہی الفاظ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججز کیلئے ہوتے تو یہی جواب دیتے، آپ جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، یہ بتائیں فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتوں میں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟ وہ واقعہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ اس کیلئے اشتعال دلایا گیا تھا، بات کو سمجھیں آپ کو یہی بات بار بار سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیڈر کی گفتگو میں بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایک ایک لفظ اہم ہوتا ہے،ہمیں فتح مکہ سے بھی سیکھنا چاہیے، ایک ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں جو ٹون استعمال ہوئی وہ درست نہیں تھی۔
عدالتی معاون ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ شوکاز نوٹس میں تین قسم کے الزامات لگائے گئے، جب گفتگو کی گئی تو معاملے کا جج نے فیصلہ کردیا تھا لیکن ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا، توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمو پذیر ہے۔ عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیکورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کااثر پڑا۔
عدالتی معاون نے کہا کہ الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ہیں، توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر اور دوسرا کنڈکٹ پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے، یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئے احترام کا اظہار کیا گیا، اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔
اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اسلم بیگ کون تھے اور کہا کہ چلیں آگے چلیں، جس کے بعد منیراے ملک نے کہا کہ میں عدالتی معاون ہوں، کسی اور کا موقف پیش نہیں کر رہا۔ منیر اے ملک نے عمران خان کے جواب پر توہین عدالت کیس ختم کرنے کی استدعا کر دی اور اس کے ساتھ ہی ان کے دلائل بھی مکمل ہو گئے۔
دوران سماعت عمران خان نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر روسٹرم پر آنے کی اجازت مانگی اور کہا کہ کیا میں کچھ بات کر سکتا ہوں؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تمام وکلاءکے دلائل سن لئے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں، ہر بات کا تناظر ہوتا ہے اور دیکھنا ہوتا ہے کہ کس تناظر میں بات کی گئی تاہم عدالت نے عمران خان کو روسٹرم پر آنے کی اجازت نہ دی۔

تبصرے بند ہیں.