کون تحفظ دے گا خواتین کو؟

33

پاکستان کے حوالے سے جب بھی خواتین کے حقوق اور آزادی کا ذکر چلتا ہے تویہ حوالہ ہمیشہ بہت اچھا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں ایک خاتون (محترمہ بے نظیر بھٹو) دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہی ہے۔جبکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں آج تک کوئی خاتون سربراہ حکومت نہیں بن سکی۔اس ضمن میں محترمہ فاطمہ جناح کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، جنہوں نے آمر وقت فیلڈ مارشل ایوب خان کی غیر جمہوری حکومت کے خلاف آواز بلند کی اور ان کے مقابل باقاعدہ صدارتی انتخاب لڑا۔ ہم نہایت فخر سے لکھتے بولتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں سے کئی ایسی ہیں جو مردوں سے بڑھ کر بلند آہنگ او ر متحرک ہیں۔ کبھی ہم عاصمہ جہانگیر کی دلیری کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی مریم نواز شریف کی بہادری کی مثال دیتے ہیں۔ صحافت،سیاست، عدلیہ،افسر شاہی اور افواج پاکستان میں فرائض سر انجام دیتی کئی قابل فخر خواتین کی مثالیں ہمارے ہاں موجود ہیں۔آج واقعتا پاکستانی خواتین کم وبیش تمام شعبوں میں متحرک دکھائی دیتی ہیں۔۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ باقی ہو، جہاں خواتین موجود نہ ہوں۔بلکہ کئی شعبوں میں تو خواتین نے مردوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے
تاہم اس دل فریب تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ یہ دوسرا رخ نہایت افسوسناک ہے۔ تمام تر آزادی، خود مختاری، ترقی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں شمولیت کے باوجود  ہمارے ہاں خواتین کے مسائل کا ایک انبوہ کثیر موجود ہے۔ عورتوں کی آزادی اور حقوق کو یقینی بنانے کیلئے بیسیوں قوانین موجود ہیں۔ ان قوانین کی موجودگی کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کامل آزادی کیساتھ گھر وں سے باہرگھوم پھر نہیں سکتیں۔دوران ملازمت  انہیں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر کی چار دیواری میں بھی وہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔ انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں ونی اور وٹہ سٹہ جیسی قبیح رسوم موجود ہیں۔غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔جنسی زیادتی کے قصے بھی معمول کا معاملہ ہیں۔ مطلب یہ کہ پاکستانی خواتین بہت سے مشکلات اور مسائل میں گھری ہوئی ہیں۔
سیلاب اور سیاست کے ہنگام یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آگئیں، جب خواتین اور بچیوں سے متعلق چند خبریں میری نگاہ سے گزری۔   ایک خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری ٹی۔وی یعنی پی۔ٹی۔وی میں خواتین کی جنسی ہراسگی کیس کا فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن میں ملازمت کرنے والی پانچ خواتین نے اس وقت کے کنٹرولر نیوز کے خلاف جنسی  ہراسگی کا کیس دائر کیا تھا۔ یہ درخواست2016 میں جمع کروائی گئی تھی۔ کئی برس کے بعد عدالت نے خواتین کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔ شواہد سے ثابت ہوا کہ سرکاری ٹیلی ویژن میں خواتین کو عہدے کا لالچ دے کر ہراساں کیا گیا۔ عدالت نے فیصلہ دیاہے کہ مجرم پانچ متاثرہ خواتین کو پانچ،پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو مجرم کی جائیداد فروخت کر کے متاثرہ خواتین کو ادائیگی کی جائے گی۔ خبر پڑھ کر خیال آیا کہ نجانے اس فیصلے پر خوش ہونا چاہیے یا ناخوش۔ یعنی ایک ایسا کیس جو فوری توجہ اور انصاف کا متقاضی تھا وہ چھ برس تک لٹکتا رہا۔ اس دوران مجرم (جو کہ اس وقت ملزم تھا) نوکری کرتا رہا اور آخرکار ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک سدھار گیا۔
بہرحال تاخیر ہی سے سہی، متاثرہ خواتین کو انصاف ملنا ایک مثبت بات ہے۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ایسے کئی قصے ہم اکثر سنتے رہتے ہیں۔ دوران ملازمت خواتین کو ہراساں کرنا مردوں کا معمول ہے۔ آئے روز کئی قصے ہمیں سننے، دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ا یسی صورتحال میں اکثر خواتین خاموش رہتی ہیں۔ کبھی کبھار کچھ خواتین آواز بلند کرتی ہیں اور انصاف کے حصول کیلئے متعلقہ اداروں کا رخ کرتی ہیں۔ ان اداروں میں بھی انہیں طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ ہمارے ہاں خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے؎؎؎ بہت سے قوانین موجود ہیں۔ تاہم ان پر عملدرآمد کی صورتحال نہایت ناقص ہے۔ ہمارے نظام عدل کی حالت ایسی ہے کہ عوام کی اکثریت  عدالتوں کا رخ کرنے گریزاں رہتی ہے۔ خواتین بھی یہی بہتر سمجھتی ہیں کہ صبر شکر کر کے خاموشی سے بیٹھ رہیں۔اب کون کسی ایک مقدمے کا فیصلہ سننے کیلئے برسوں تک انتظار کی سولی پر لٹکا رہے۔ وکیلوں کی بھاری بھرکم فیسیں بھی بھرے۔ عدالتوں کی پیشیاں بھگتے۔ معاشرے کے سوالوں کا سامنا بھی کرے۔ اس سارے کشٹ کے باوجود انصاف ملے نہ ملے۔
ہراسگی کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی ہمارے ہاں نہایت عام ہیں۔اس ضمن میں معصوم بچیاں خاص طور پر نشانہ بنتی ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی خبر سامنے آجاتی ہے۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ لاہور شہر میں ایک دس سالہ بچی ماریہ اپنے بھائی اور بہن کیساتھ ایک پرائیویٹ سوئمنگ پول میں نہانے کے لئے گئی اور مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی۔ سندھ میں ایک ہندو لڑکی کیساتھ ہونے والی زیادتی کی خبر بھی سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ ایسے افسوسناک واقعات کی خبریں بھی چند دن میڈیا کی زینت بننے کے بعد  غائب ہو جاتی ہیں۔
جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کی درندگی کا اندازہ کیجیے۔ کئی ہفتوں سے سیلاب نے ایک قیامت برپا کر رکھی ہے۔ قیامت خیز مناظر دیکھ کر دل ہول جاتا ہے۔ اس کے باوجود خواتین کے خلاف جنسی جرائم جاری ہیں۔ دو دن پہلے کی خبر ہے کہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں چند اوباشوں نے ایک خاتون کو راشن دینے کے بہانے بلایا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔  2005 کے زلزلے میں بھی یہ واقعات سامنے آئے تھے۔ زلزلے سے آنے والی تباہی میں بہت سے نامراد خواتین اور بچیوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات میں ملوث رہے۔ اس وقت کی حکومت کو خاص طور پر اس پہلو کی طرف توجہ دینا پڑی تھی۔ نجانے سیلاب کی افتاد کا سامنا کرتی کتنی خواتین کو اس طرح کے درندوں کا سامنا ہو گا۔معلوم نہیں کہ ان خواتین کے تحفظ کا کوئی بندوبست ہے بھی یا نہیں۔
خواتین کے مسائل سے متعلق ایک نہایت دکھی کر دینے والی تحریر میری نگاہ سے گزری۔ اس میں ذکر ہے کہ سیلاب میں گھری سات، آٹھ لاکھ خواتین حاملہ ہیں۔ ان میں کم وبیش ستر ہزار خواتین کی زچگی نہایت قریب ہے۔ ہماری بے بسی کا اندازہ کیجئے کہ ابھی تک تمام تر سرکاری اور غیر سرکاری کاوشوں کے باوجودہم تمام سیلاب متاثرین کو خوراک تک فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔بیشتر کو ابھی تک چھت میسر نہیں ہو سکی۔ تن ڈھانپنے کو کپڑے موجود نہیں۔ ایسے میں زچگی کے قریب ان ستر ہزار خواتین کے علاج معالجے کا بندوبست کیونکر ہو سکے گا؟ نجانے ان ستر ہزار خواتین پر کیا بیتے گی۔ بس اللہ پاک سب پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں.