جنگِ ستمبر۔۔۔کس کس واقعے کو یاد کریں؟

28

ستمبر 1965 کی 17 روزہ پاک بھارت جنگ کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے ذہن کے نہاں خانے میں 55، 60 سال قبل کے زمانے کی یادیں اور باتیں اس طرح تازہ ہو رہی ہیں کہ دل ایک بار پھر اُسی دور میں لوٹنے کو مچلنے لگاہے۔ 1965 کی گرمیوں کے وہ دن مجھے ایسے یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ میں اُن دنوں راولپنڈی کینٹ بورڈ کے ایک سکول میں پڑھاتا تھا۔ اُس دور میں عموماً جون وسط سے اگست آخر تک تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات ہوا کرتی تھی۔ یہ تعطیلات اکثر گاؤں میں گزرا کرتے تھے۔ یکم ستمبر کو گاؤں سے پنڈی آنا ہوا تو پتہ چلا کہ پاک بھارت تعلقات میں پچھلے کئی ماہ سے شدید کشیدگی اور جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔ اُسی شام یعنی یکم ستمبر 1965 کی شام کو مجھے پنڈی چھاؤنی کے علاقے مریڑ حسن میں جانا تھا۔ میں پیدل سرور روڈ پر پنڈی سٹیشن ہیڈکوارٹر اور لاگ ایریا ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرا تو اندھیرا اور بڑی خاموشی نظر آئی۔ جیسے یہ عمارات خالی ہوں۔ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ یہاں موجود فوجی جنگ کے خطرے کے پیشِ نظر پاک بھارت سرحد پر اگلے مورچوں پر بھیج دیئے گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد رات 8 بجے ریڈیو پاکستان سے قومی نشریاتی رابطے پر اُردو خبروں کا وقت ہو گیا۔ اُس دور میں مغربی پاکستان کے وقت کے مطابق رات 8 بجے سے 8:15 تک اور مشرقی پاکستان کے وقت کے مطابق رات 9 بجے سے 9:15 تک قومی نشریاتی رابطے پر اُردو خبریں پڑھی جایا کرتی تھیں۔ اُس کے بعد 15منٹ کے لیے انگریزی خبروں کا وقت ہوتا تھا۔ مریڑ حسن میں سڑک کے کنارے موجود پان سگریٹ کی دوکان کے سامنے کھڑے کچھ اور لوگوں کے ہمراہ میں نے اُردو خبریں سنیں۔ ریڈیو پاکستان کے مایہ ناز نیوز ریڈر شکیل احمد مرحوم کا خبریں پڑھنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ انہوں نے جب اپنی آواز کے زیرِ و بم کو خبروں کے الفاظ کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے بتایا کہ آج پاکستان کے مسلح دستوں نے چھمب جوڑیاں سیکٹر میں سیز فائر لائن کو پار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ بھارتی افواج کو برُی طرح پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہمارے فوجی دستے چھمب سے آگے بڑھتے ہوئے جوڑیاں اور دریائے توی کے کنارے پر پہنچ گئے ہیں اور دشمن کا بہت سارا جنگی ساز و سامان ہمارے قبضے میں آیا ہے۔ یہ سننا تھا تو ہم خبریں سننے والوں کی زبانوں پر بے ساختہ پاکستانی فوج زندہ باد کے نعرے بلند ہو گئے اور پھر وہاں موجود ہم لوگوں کے جوش و جذبے کی انتہا نہ رہی جب مرحوم شکیل احمد نے پورے جوش و جذبے کے ساتھ یہ بتایا کہ 6 بھارتی طیارے جو پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنے فوجی دستوں کی مدد کے لیے آئے تھے ان میں سے دو کو فضا میں موجود ہمارے جنگی طیاروں نے اپنی مشین گنوں کا نشانہ بنا لیا جب کہ باقی چار طیارے دم دبا کر بھاگ گئے۔
یکم ستمبر 1965 کو مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مسلح دستوں کی پیش قدمی اور دو بھارتی لڑاکا طیاروں کا گرایا جانا اس بات کی علامت تھی کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی بڑی فوجی کارروائی سے دریغ نہیں کرے گا۔ اُن کا وزیرِ اعظم لال بہادر شاستری کچھ ہی ماہ پہلے رن آف کچھ میں پاکستانی فوجی دستوں کے مقابلے میں بھارتی فوجی دستوں کی پسپائی اور شکست کے بعد یہ اعلان کر چکا تھا کہ وہ پاکستان سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اپنی مرضی کا محاذ کھولے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں چھمب جوڑیاں سیکٹر میں پاکستانی فوجی دستوں کی پیش قدمی جاری رہی اور وہ سیالکوٹ کے شمال مشرق میں بھارت کے شہر پٹھان کوٹ سے مقبوضہ کشمیر میں جموں تک جانے والی شاہراہ کے اہم مقام اکھنور تک جا پہنچے۔ اکھنور پر پاکستانی فوجوں کے قبضے کا یہ مطلب تھا کہ بھارت سے جموں و کشمیر کو جانے والی شاہراہ یا سپلائی لائن پاکستان کے قبضے میں آ گئی ہے۔ ان حالات میں اس بات کا پورا امکان موجود تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف کوئی بڑا فوجی اقدام کر سکتا ہے۔ تاہم یہ خیال بھی پایا جاتا تھا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملے کی جرأت نہیں کرے گا لیکن 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات کو جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ بھارت نے واہگہ سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ بھارتی جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ 6ستمبر کی شام تک لاہور پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی بنا پر بھارتی کمانڈر انچیف جنرل چودھری نے 6 ستمبر کی شام کو جمخانہ کلب لاہور میں فتح کا جشن منانے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اُسے منہ کی کھانا پڑی اور ہمارے جانباز دلیری، بہادری، جانثاری اور سرفروشی میں اپنی مثال آپ ثابت ہوئے یہاں تک کہ اُس کی سپاہ 23 ستمبر کو جنگ بندی کے اعلان تک بی آ ربی نہر کے اُس کنارے سے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔

ستمبر کی صبح 7 بجے ریڈیو پاکستان کی خبروں میں لاہور پر بھارتی حملے کی خبر سنائی گئی۔ تقریباً 6 عشروں کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود 6 ستمبر 1965 کا دن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ایسا ہی ملجگہ سا دن تھا۔ فضا میں کچھ کچھ گرد و غبار اور دھند سی پھیلی ہوئی تھی۔ میں اپنے گاؤں میں موجود تھا۔ ہمارے پاس خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان ہوتا تھا جس کی نشریات صبح 7 بجے اور اس کے بعد مختصر وقت کے لیے دن 11 بجے تک ہوتیں، اس کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان کی صبح کی نشریات ختم ہو جاتی تھیں۔ دن 4:30 بجے شام کی نشریات کا آغاز ہوتا تو 5 بجے مقامی خبریں اور اس کے بعد 7 بجے قومی نشریاتی رابطے پر انگریزی خبروں کا بلٹن ہوا کرتا تھا اور پھر جیسے اُوپر لکھا گیا ہے رات پونے 8 بجے سے 8:30 تک پندرہ پندرہ منٹ کے لیے بنگالی، اُردو اور آخر میں انگریزی خبروں کے بلٹن ہوا کرتے تھے۔ رات 10 بجے ریڈیو پاکستان کی نشریات بند ہو جایا کرتی تھی۔ خیر میں 6 ستمبر کا ذکر کر رہا تھا۔ جس دن لاہور پر بھارتی حملے کی خبر میں نے اپنے گاؤں میں سنی۔ اُس وقت خال خال لوگوں کے پاس ریڈیو سیٹ ہوا کرتے تھے۔ میرے گھر میں کوئی ریڈیو سیٹ نہیں تھا۔ خبریں وغیرہ سننے کے لیے ایک رشتہ دار دکاندار ملک امیر زمان مرحوم کی دکان کا رُخ کرنا ہوتا تھا۔ 6 ستمبر کی صبح میں مرحوم امیر زمان کی دکان کے باہر چند احباب کے ساتھ موجود تھا کہ لاہور پر بھارتی حملے کی خبر سنائی گئی۔ جسم میں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ غصے، جوش و جذبے اور انتقام کی کیفیت میں مٹھیاں بھنچی ہوئیں جیسے دشمن سامنے ہو تو اسے کچا چبا جاؤں۔ خیر بھارتی حملے کی خبر سننے کے کچھ ہی دیر بعد طیاروں کی گھڑ گھڑاہٹ کی آواز سنائی دی فضا میں نظریں گھمائیں تو دیکھا کہ کم از کم 6 طیاروں کی ایک ٹکڑی تیز رفتاری سے مغرب سے مشرق کی طرف محو پرواز تھی۔ غالباً یہ ہماری فضائیہ کے لڑاکا سیبر طیارے تھے جو لاہور کے محاذ پر اپنے مسلح دستوں کو کمک پہنچانے اور لاہور کے مشرق میں بی آر بی نہر کے اُس کنارے پر دشمن کے ہر اول دستوں کو تباہی سے دو چار کرنے کے لیے تیزی سے اُڑے جا رہے تھے۔کچھ ہی دیر بعد ریڈیو پر بتایا گیا کہ جلد ہی صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان قوم سے خطاب کریں گے۔ گیارہ بجے صدرِ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو معلوم نہیں کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے، دس کروڑ پاکستانیوں کے سینے قرآن کے نور سے منور ہیں تو ان الفاظ میں ایک جادو تھا، ایک ایسا اثر تھا کہ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دُشمن کے مقابلے میں اُٹھ کھڑی ہوئی اور اُس نے ایسی یکجہتی، اتحاد و اتفاق، عزم و حوصلے اور ایثار وقربانی کا مظاہرہ کیا کہ دُشمن کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ لاہور کے محاذ پر 6 ستمبر کی رات اندھیرے میں اچانک اور چوری چھپے حملے کی وجہ سے دُشمن کو کچھ ابتدائی کامیابی ضرور حاصل ہوئی لیکن اس کے بعد 17 دنوں تک وہ آگے بڑھنے کی کوشش میں سر پٹختا رہا اور بی آر بی نہر کے اس کنارے پر متعین جنرل سرفراز کا دسواں ڈیژن اس کے راستے میں سدسکندری بن کر حائل رہا۔
(جاری ہے)

 

تبصرے بند ہیں.