اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کو پی ٹی آئی بہت اچھے طریقے سے استعمال کر رہی ہے۔ پہلے پہل یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شاید یہ سب کیا دھرا جہانگیر ترین کا ہے مگر بہت میں پتہ چلا کہ جہانگیر ترین نے بھی پی ٹی آئی کے اس سوشل میڈیا کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اپنے لیے الگ سے سوشل میڈیا ٹیم بنائی تھی۔ ایک دور تھا کہ ہم جماعت اسلامی کی میڈیا مینجمنٹ کی بہت تعریف کرتے تھے اور وہ حقیقت میں میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کو قائم رکھنے پر کافی کام کرتے تھے اب جماعت اسلامی میں یہ کام صرف ان کے سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ بھی تمام نامور صحافیوں کو ان کی سالگرہ پر یاد رکھتے ہیں اور ان کو کیک بھیجتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی۔ اس سیاسی جماعت نے اس پلیٹ فارم کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ نتائج حاصل کیے ہیں اور اب یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ پی ٹی آئی اسی کو بنیاد بنا کر یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں اکثریت کی حمایت اسے حاصل ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی جماعت ہے اور عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں اور یہ سارا اعجاز سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہے جس نے صبح شام سچ اور جھوٹ کو الگ کیے بغیر اسے لوگوں تک پہنچایا اور لوگوں نے جھوٹ کو بھی سچ مان کر اسے تسلیم کر لیا۔ کبھی آپ نے یہ سوچا کہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اکاؤنٹس سے جھوٹی خبریں اور تجزیے کیوں پیش کیے جاتے ہیں، جعلی اکاؤنٹس بنا کر جھوٹ کی تشہیر کیوں کی جاتی ہے۔ یہ ایک آرٹ ہے اور پی ٹی آئی نے اس آرٹ پر دسترس حاصل کر رکھی ہے۔ اسرائیل کی مثال ہمارے سامنے ہے سوشل میڈیا پر آپ اس کے مفادات کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتے اسی طرح آپ پی ٹی آئی کے خلاف کچھ لکھیں تو بھی آپ سوشل میڈیا سے بلیک آؤٹ ہو جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کا پروپیگنڈہ پھیلانے کے لیے لوگوں کو باقاعدہ بھرتی کیا جاتا ہے اور ان کا کام ہی پروپیگنڈہ کو آگے بڑھانا ہے۔ اس بھیڑ چال میں وہ بھی شامل ہو جاتے ہیں جنہیں ملتا کچھ نہیں لیکن وہ اسے جہاد سمجھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ نے حیران کن انکشافات پر ایک رپورٹ جاری کی ہے اور اس کی مندرجات یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ پی ٹی آئی نے جو ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی اس کا بڑا حصہ سوشل میڈیا پر استعمال کیا۔ ایماندار ثابت کرنے کے لیے چائے اور بسکٹ کے ساتھ عمران خان کی تصاویر ایسے ہی وائرل نہیں ہوتی اس کے پیچھے غیر ملکی سرمایہ لگا ہوتا ہے۔ اللہ بخشے ڈاکٹر اسرار اور حکیم سعید یاد آتے ہیں اللہ ان کی قبروں کو منور فرمائے انہوں نے بہت پہلے پلے بوائے کی حقیقت بتا دی تھی مگر ہم اسے سمجھ نہیں سکے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابراج گروپ کے سابق مالک عارف نقوی کی جانب سے پاکستان منتقل کی گئی ‘مشکوک’ رقم کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ غیر ملکی فنڈز کی ایک بڑی رقم 2013 کے عام انتخابات کے دوران سابق حکمران جماعت
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی میڈیا مہم کے لیے استعمال کی گئی۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی حاصل کردہ دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ 6 لاکھ 25 ہزار ڈالر ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے ذریعے منتقل کیے گئے، جو کیمین آئی لینڈ کی رجسٹرڈ آف شور فرم ہے اور عارف نقوی کی ملکیت ہے، جو اس وقت امریکی عدالت میں 1 ارب ڈالر مالیت کی دھوکا دہی کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ ووٹن سے براہ راست پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں موصول ہونے والے 21 لاکھ 20 ہزار ڈالر کے علاوہ ہے، جیسا کہ پارٹی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے 2 اگست کے فیصلے میں درج کیا گیا ہے۔دستاویزات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ رقم ووٹن کرکٹ کے اکاؤنٹ سے ‘دی انصاف ٹرسٹ’ اکاؤنٹ میں بھیجی گئی تھی جسے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے قریبی دوست طارق شفیع نے ٹرسٹ کے پہلے چیئرمین کی حیثیت سے کھولا تھا۔طارق شفیع نے اپنے ایک ذاتی اکاؤنٹ میں 5 لاکھ 75 ہزار ڈالر بھی وصول کیے اور پی ٹی آئی کے اعلان کردہ اکاؤنٹ میں منتقل کر دیے۔ دستاویزات میں انکشاف ہوا کہ 8 مئی 2013 کے عام انتخابات سے 3 روز قبل دو میڈیا مینجمنٹ فرموں، یعنی ‘کمیونیکیشن اسپاٹ’ اور ‘گروپ ایم’، کو پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کے لیے ٹرسٹ اکاؤنٹ سے بالترتیب 3 کروڑ 60 لاکھ روپے اور ڈھائی کروڑ روپے ادا کیے گئے۔مذکورہ اکاؤنٹ صرف ایک ٹرانزیکشن کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور اس وقت سے غیر فعال ہے۔
‘گروپ ایم’ نے ایف آئی اے کے کال اپ نوٹس کے جواب میں اس بات کی تصدیق کی کہ اسے پی ٹی آئی کی 2013 کے عام انتخابات کی مہم چلانے کے لیے 41 کروڑ 20 لاکھ روپے کی پیشگی ادائیگی موصول ہوئی تھی، جس میں سے 37 کروڑ 50 لاکھ روپے استعمال کیے گئے اور باقی رقم ایک کراس چیک مورخہ 18 ستمبر 2013 کے ذریعے پارٹی کو واپس کر دی گئی۔
یہ وہ معاملات ہیں جو اب تک سامنے آئے ہیں اور بہت سے اکاؤنٹس ابھی تک پوشیدہ ہیں۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے مال لگایا ہے اور اس ملک میں ایسے بہت سے ہیں جنہوں نے مال کمایا ہے اور ان میں صحافی بھی شامل ہیں۔ جب تک کچھ کھایا نہ جائے چہرے پر لالی نہیں آتی اور جب تک پیٹ بھرا نہ ہو جگالی نہیں ہوتی۔ کئی ایسے ہیں جو براہ راست مستفید ہوتے رہے اور بہت سے ایسے ہیں جو بذریعہ بٹھنڈا مال بناتے رہے۔ امیر المومنین کے خطابات ایسے نہیں دیے جاتے اور عمران خان کے جلسوں میں سیاسی تقریریں بلا وجہ نہیں ہوتیں۔ آج بھی اس ملک کے بہت سے ایسے دانشور ہیں جو تحریک انصاف کے باقاعدہ تنخواہ دار تھے ان میں صرف شیریں مزاری ابھی تک ساتھ موجود ہیں ان کے ساتھ آنے والے ادھر ادھر ہو گئے ہیں مگر پرانی محبتیں کہاں بھلائی جاتی ہیں۔ آج ہی سوشل میڈیا پر میڈیا گریجوایٹس کی انٹرن شپ کا اشتہار نظر سے گذرا ہے جس میں منتخب ہونے والے کو بیس ہزار روپے ماہانہ دیا جائے گا۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ ایک عمدہ کام ہے اور اگر ان بچوں کو انٹرشپ دے کر مختلف اداروں میں بھیجا جائے تاکہ ان کی ٹریننگ ہو سکے تو یہ میڈیا پر احسان ہو گا لیکن اسے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے لیے استعمال کی جائے تو یہ اس قوم پر ظلم ہو گا۔ حکومت کو فوری طور پر اس کی وضاحت کرنا چاہیے کہ یہ میڈیا گریجویٹس کہاں اور کیسے تربیت حاصل کریں گے۔
پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کنگڈم نے بہت سے کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔ سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے کا کام تو وہ حسب توفیق کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد اس بریگیڈ نے فوج کو اپنے نشانے پر رکھ لیا اور اب بھی فوج کے سربراہ کے خلاف منظم انداز میں پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ لسبیلہ حادثے کے حوالے سے جو مذموم پروپیگنڈہ ہوا اس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے یہ ثابت کر دیا کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا پیش پیش تھا۔
پی ٹی آئی سے سوشل میڈیا اگر چھین لیا جائے تو پی ٹی آئی کی مقبولیت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی اپنی اس کنگڈم کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ وہ لوگ جنہیں وفاق سے پیسہ ملتا تھا اب وہ پنجاب کے خزانے سے مستفید ہو کر اپنی جماعت کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا ایک ہی اصول ہے کہ جھوٹ کو اتنا زیادہ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنا شروع ہو جائیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.