آئین کی بالادستی؟؟؟

53

دنیا کا کوئی بھی ملک آئین وقانون کی بالادستی کے بغیر ترقی کرنا تو کجا اپنی سلامتی تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ یہ بجا کہ دنیا کے ہر ملک میں آئین وقانون شکن پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن جہاں نظامِ انصاف مضبوط تَر ہو وہاں ایسے جرائم کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔ پاکستان مگر ایسا ملک جہاں ہردَور میں جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت جاری وساری رہا۔اُدھر پارلیمنٹیرینز کی حالت یہ کہ 90 فیصدنے کبھی آئین کی کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ ہم نے لگ بھگ 37 سال آمریتوں کے زیرِسایہ گزار دیئے لیکن پھر بھی ہمارے بزعمِ خویش رَہنماؤں کو ہوش نہ آیا۔ یہاں جو لنگڑی لولی جمہوریت گھٹنوں کے بَل رینگ رہی ہے، اُسے بھی ہمارے رَہنماء اپنی ذاتی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ہمیں نوازلیگ سے کوئی غرض ہے نہ پیپلزپارٹی سے اور نہ ہی تحریکِ انصاف سے۔ ہمارے لیے وہی حقیقی رَہنماء جو آئین کی بالادستی کا علمبردار ہو اورجس کے سینے میں ملک وملت کا درد ہو۔حقیقت یہی کہ عمران خاں کے چاہنے والے آج بھی بہت، مریم نواز کے جلسوں کی رونق بڑھانے والے بیشمار اور بلاول بھٹو زرداری کو اُبھرتا ہوا سیاسی لیڈر سمجھنے والے جیالے اَن گنت لیکن مریم نواز کے کندھوں پر مملکت کا بوجھ پڑا نہ بلاول کے کندھوں پر لیکن عمران خاں جو ساڑھے تین سالوں تک ارضِ وطن کے بِلاشرکتِ غیرے حکمران رہے، اُن سے سوال تو بنتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ انمول موتی کہاں سے ڈھونڈ نکالاجو کبھی جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو ملاتا ہے اور کبھی پاکستان میں 12 موسموں کی نوید سناتا ہے۔ جس کا اعلان یہ کہ اُس سے زیادہ صاحبِ علم اور کوئی نہیں۔ جب دین کی بات کرتا ہے تو کہتا ہے کہ تاریخ میں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر تک نہیں، دعویٰ پھر بھی قُرآن فہمی کا جس میں جابجا حضرت عیسیٰ کا ذکر موجود۔ دینِ مبیں کے بارے میں اُس نے وہ کچھ کہا اُسے دہراتے ہوئے بھی ہم لرزہ بَراندام۔ پتہ نہیں وہ اُس وقت اپنے حواس میں ہوتا بھی ہے یا نہیں جب کہتا ہے کہ جب پاکستان بنا تو اِس کی آبادی 40 کروڑ تھی۔ جب اُسی جیسا ’’صاحبِ علم‘‘ لقمہ دیتاہے کہ 40 کروڑ نہیں 40 لاکھ تو پہلے خان انکار کرتا ہے لیکن پھر اُس کی بات مان لیتا ہے۔ جس شخص کو یہ علم بھی نہیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی ساڑھے 7 کروڑ سے زائد تھی جس میں 3 کروڑ 37 لاکھ مغربی پاکستان اور 4 کروڑ 20 لاکھ مشرقی پاکستان کی آبادی تھی۔ یہ اعداد وشمار 1951ء میں پہلی مردم شماری میں سامنے
آئے۔ اب پاکستان کی آبادی 22 کروڑ نہیں بلکہ 23 کروڑ 14 لاکھ ہے۔ جو شخص پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کی آبادی ایک ارب 300 کروڑ بتاتا ہے اور اتنا بھی نہیں جانتا کہ 300 کروڑ 3 ارب ہوتے ہیں، گویا اُس کے حساب سے بھارت کی آبادی 4 ارب ٹھہری ، وہ ایٹمی پاکستان کا وزیرِاعظم، ہے ناں حیرت کی بات؟۔ جس شخص کی کرپشن کی داستانیں زباں زَدِعام وہ دوسروں کو چور اور ڈاکو کہے تو حیرت ہوتی ہے۔ جو شخص وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک گزر جائے اُسے محبِ وطن کون کہہ سکتا ہے۔ جس شخص نے کبھی آئین کی پرواہ کی ہو نہ قانون کی وہ اور سب کچھ تو ہو سکتا ہے، سیاسی رَہنماء ہرگز نہیں۔
2014ء کے دھرنے میں اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کی تھپکی پر اُس نے آئین وقانون کو اپنے پاؤں تلے رَوندتے ہوئے سول نافرمانی کا اعلان کیا، یوٹیلٹی بِلز جلائے، رقم ہُنڈی کے ذریعے بھیجنے کا کہا، پی ٹی وی پر قبضہ کیا، وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ کیا، پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑے لیکن قانون اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکا کہ اُس وقت زورآور اُس کی پُشت پر تھے۔ آج زورآور نیوٹرل ہونے کا اعلان کر چکے مگر پھر بھی وہ کچھ لوگوں کے نزدیک ابھی بھی ’’لاڈلا‘‘ ہے۔ ذاتی طور پر بُزدل انسان کی بڑھکوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی کچھ ہاتھ اُسے سنبھالے ہوئے ہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے 7 اپریل 2022ء کے فیصلے کے مطابق اُس کی صریحاََ آئین شِکنی کے باوجود اُس پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکے۔ اُدھر میاں شہبازشریف کی غالباََ پالیسی یہ ہے کہ جن لوگوں نے عمران خاں کو مسلط کیا تھا، اب وہی بھگتیں لیکن عمران خاں کو دی جانے والی ڈھیل اور مفتاح اسماعیل کے ہاتھوں مہنگائی کے ٹوٹتے ریکارڈ نے مسلم لیگ کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے ساتھ ہی نوازلیگ عام انتخابات کی طرف قدم بڑھاتی یا پھر ہمت کرکے فتنۂ عمرانیہ کی بیخ کنی کی طرف چل نکلتی۔ ہم نے تو اُس وقت بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ
پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
اتحادی حکومت کی کمزوری کے باعث اب صورتِ حال 2014ء کے دھرنے جیسی ہو چکی ہے۔ اُن دنوں جب عمران خاں پر کیسز بنے اور اُنہیں مفرور قرار دیا گیا تو پھر بھی اُنہیں گرفتار کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ اُس وقت نعیم الحق مرحوم نے طنزیہ انداز میں کہا تھا ’’عمران خاں بنی گالہ میں بیٹھا ہے، کسی میں ہمت ہے تو جاکر اُسے گرفتار کر لے‘‘۔ تب بھی عمران خاں گرفتار نہ ہو سکے اور آج بھی وہی دھمکیاں جاری ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے کہا ’’میں عمران خاں کی گرفتاری کی احمقانہ سوچ رکھنے والوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اگر اُنہوں نے ایسی کوشش کی تو ہم عوامی طاقت سے اسلام آباد کو ٹیک اووَر کر لیں گے‘‘۔ ایسی ہی دھمکی وزیرِاعلیٰ کے پی کے محمود خاں نے بھی دی۔ خود عمران خاں یہ کہتے ہیں کہ وہ جب چاہیں اسلام آباد بند کر سکتے ہیں۔ کیا یوں صوبے کا مرکز پر حملہ آور ہونا سنگین غداری نہیں؟۔ شوکت ترین نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ کو کال کرکے کہاکہ وہ مرکزی وزیرِخزانہ کو خط لکھ دیں کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے پابند نہیں۔ وہ خط سوشل میڈیا کے ذریعے خود بخود آئی ایم ایف تک پہنچ جائے گا۔ جب وزیرِخزانہ پنجاب محسن لغاری نے سوال کیا کہ کیا اِس سے ریاست کو نقصان تو نہیں ہوتا تو شوکت ترین نے جواب دیا ’’یہ تو ضرور ہوگا کہ آئی ایم ایف کہے گا پیسے کہاں سے پورے کریں گے؟‘‘۔کیا یہ ملک سے غداری نہیں؟۔عمران خاں نے تو آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کے علاوہ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری کو بھی دھمکی دی جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام جسٹس صاحبان نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے عمران خاں پر توہینِ عدالت کا کیس چلانے کا فیصلہ کیا اور 3 رُکنی بنچ نے اُس کو نوٹس بھیجا۔ چھٹیوں سے واپسی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر مِن اللہ صاحب کی سربراہی میں 5 رُکنی بنچ تشکیل دیا گیا۔ عدالتی نوٹس کے جواب میں عمران خاں نے اپنے تحریری موقف میں لکھا ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ مِس زیبا چودھری جوڈیشل آفیسر ہیں۔ مجھے غلط فہمی ہوئی کہ شاید وہ انتظامی آفیسر ہیں‘‘۔ گویا ایک سابق وزیرِاعظم یہ بھی نہیں جانتے کہ توہین جوڈیشل آفیسر کی ہو یا انتظامی آفیسر کی، بہرحال توہین ہی ہے۔ جناب اطہرمِن اللہ کے بارے میں رائے عامہ تو یہی ہے کہ وہ بِلاخوف دبنگ فیصلے کرتے ہیں لیکن عمران خاں کے تحریری جواب پر اُنہوں نے فرمایا ’’عمران خاں کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔ اُن کی کافی فالوونگ ہے۔ میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہوگا کہ غلطی ہو گئی۔ تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دُکھ ہوا‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی فرمایا ’’اِس عدالت کی مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چودھری کے کیس میں فیصلے دیئے ہوئے ہیں‘‘۔ اِس کے بعد چیف صاحب نے نوٹس کا بِن مانگے دوبارہ جواب لکھنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔ چیف جسٹس صاحب کی اِس ڈھیل پر سبھی حیرت زدہ کہ آخر توہینِ عدالت کے ملزم پر اتنی شفقت کیوں؟۔ انتہائی ادب سے سوال کہ کیا یہ ڈھیل صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جن کی ’’کافی فالوونگ‘‘ ہے یا عامی بھی اِس سے مستفید ہو سکتے ہیں؟۔

تبصرے بند ہیں.