وفادار سیاسی کارکن، پیر صابر شاہ

14

خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور غازی سری کوٹ سے تعلق رکھنے والے ممتاز سیاستدان و سینیٹر پیر صابر شاہ نے عملی سیاست کا آغاز 1985سے کیا تھا اورخیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اصولی سیاست کی ہے ،زندگی میں سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کی جوانی سے مسلم لیگ کے ساتھ وابستہ ہوئے تھے اور تا حال مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مارشل لاء کے ادوار میںبھی آمر کے سامنے ڈٹے رہے،ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے آئینی جدوجہد میںحصہ لیا ،جیلیں کاٹیں مشکلات برداشت کیئے،اپنے قائد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے ساتھ چٹان کی طر ح کھڑے رہے ۔
12اکتوبر 1999کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارا اور مارشل لا ء نافذ کیا،اس وقت پیر صابر شاہ مسلم لیگ خیبر پختونخوا (سرحد) کے صدر تھے ، سب سے پہلے مسلم لیگ کا اجلاس پشاور میں بلایا اورمارشل لاء کی مخالفت کی ۔پیر صابر شاہ نے واضح موقف اپنایاکہ سر کٹ سکتا ہے مگر نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے،یہ وہ دور تھا جب پنجاب میں چوہدری برادران نے مارشل لاء کی مذمت کرنے سے گریز کیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا ساتھ دیا ۔نواز شریف کے وفا دار ساتھی پیر صابر شاہ نے اس وقت بیگم کلثوم نواز صاحبہ اور ان کی بیٹی مریم نواز کو خیبر پختونخوا (سرحد) کے دورے کی دعوت دی۔
حیات آباد پشاور میں اپنے گھر کے سامنے بڑاجلسہ کیا اور کلثوم نواز صاحبہ کے سر پر پختون روایات کے مطابق چادر پہنائی اور پیر صابر شاہ نے اعلان کیا کہ ہم کسی صورت میں اپنے قائد نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے۔بڑے قافلے کی صورت میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ کو اٹک خیر آباد تک پہنچایا گیا جہاں سے انہیں رخصت کیاگیا۔
میاں اظہر نے چوہدری برادران کے ساتھ مل کر ہم خیال لیگ بنائی ،پیر صابر شاہ کو بھی بہت بڑے عہدے کی آفر کی گئی لیکن انہوں نے ہر قسم کی لالچ اور عہدوں کی آفر کو ٹھکرایا ۔پشاور میں مسلم لیگ صوبائی کونسل اجلاس منعقد کیا جس میں اس وقت پارٹی کی چیئر مین راجہ ظفر الحق اور قائمقام صدر مخدوم جاوید ہاشمی سمیت دیگر پارٹی کے مرکزی قائدین نے شرکت کی جس میں محمد نواز شریف کی قیادت میں مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔پیر صابر شاہ کو2002کے الیکشن میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے اور (ق) لیگ میں شامل ہونے کیلئے گورنرشب کی آفر کی گئی لیکن اصولی سیاست و شرافت کے پیکر پیر صابر شاہ نے گورنر شب کی آفرکو بھی ٹھکراتے ہوئے اپنے قائد کے ساتھ ڈٹے رہے۔
غاصب پرویز مشرف کے دور میں ایک بریگیڈیر نے پیر صابر شاہ پر بہت دبائو ڈالا اور دھمکیاںدی گئیں کہ مسلم لیگ (ن) چھوڑ دیںلیکن اس وقت پیر صابر شاہ نے وہ تاریخی الفاظ کہہ دیئے کہ ’’ہمارے آبا واجداد کی تاریخ قربانیوں اور وفاداریوں سے بھری پڑی ہے ہمارے قبیلے کے سربراہ کو سکھوں نے گرفتار کیا ان سے کہا کہ لشکر کو کہہ دو ہتھیار ڈال دیں لیکن انہوں نے انکار کیا سکھوں نے توپ کے سامنے باندھ کر اڑا دیا لیکن پھر بھی ہمارے اسلاف اصولوں پر قائم رہے‘‘ جو کہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔پیر صابر شاہ کے تاریخی الفاظ سن کر بریگیڈیر چلے گئے۔
اس طرح پیر صابر شاہ نے اپنے مشران کے نقش قدم پر چل کر وفا اور اصولی سیاست کی، پورے ملک سمیت بیرونی ممالک میں شرافت و ملنساری کی وجہ سے لوگ پیر صابر شاہ کی قدر کرتے ہیں اور اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں ۔پیر صاحب کو نہ صرف اپنی پارٹی کے کارکن و قائدین بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکن کی بھی عزت دیتے ہیں ۔پیر صابر شاہ اس وقت ایوان بالا کے رکن اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی آبی وسائل کے چیئر مین ہیں۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پارٹی کے سینئر عہدیدار و کارکن یہ گلہ کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وہ مقام نہیں دیا گیا جو ان کاحق بنتا ہے، صاحبزادہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے پیر صابر شاہ نے حکومتی عہدوںو مراعات کی لالچ کبھی نہیں کی، لیکن پارٹی کارکن کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی قد کاٹھ اور قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں انہیں اہم ذمہ داری سونپنی چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.