الخدمت فاﺅنڈیشن کی خدمات

52

ہمیں نہیں معلوم کہ ان خواتین اور لواحقین، بچوں کے کیا جذبات ہوں گے جن کو تین گھنٹے کی مسلسل جدوجہد سے اس کار سے نکالا گیا جو سیلاب کے دوران دریا میں گر گئی تھی، معجزہ یہ ہوا کہ وہ زندہ تھیں، انھیں دیکھ کر حاضرین کی خوشی کی انتہا نہ رہی، الخدمت فاﺅنڈیشن پاکستان کے رضاکاروں نے اللہ کی رضا کے لئے یہ کام کیا ہے۔ ذرا چشم تصور میں لائیں کہ جب متاثرہ خواتین کے اہل خانہ کو اس حادثہ کا علم ہوا ہوگا تو انکے بچوں بڑوں کی کیا کیفیت ہوگی، خود خواتین بھی اپنی زندگی سے مایوس ہو چکی ہوں گی، مگر مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقتور ہے کے اصول پر انھیں پھر سے زندگی ملی، اگر یہ کام کسی سے معاوضہ پر کرایا جاتا تو گمان ہے کہ ہر لحظہ انکے لواحقین کو بلیک میل ہونا پڑتا، مگر الخدمت کے جان نثاروں نے انسان کی جان بچا کر پوری انسانیت کی جان بچانے کے فلسفہ کو عملی شکل دی ہے، یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں سیلاب کے اس عذاب میں خیبر تا کراچی، سندھ تا کشمیر ہر جگہ، ہر کونے اور مقام پر الخدمت کے رضا کاروں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی زندگیاں بچاکر تاریخ رقم کی ہے، انکی خدمات کی باز گشت پورے عالم میں میڈیا کی وساطت سے سنی گئی ہے۔
خیبر پختون خوا کے علاقہ میں پھنسے بچے، بوڑھے، خواتین کو جس طرح الخدمت کے نوجوانوں نے میت کی ڈولی کو لفٹ بنا کر انھیں انکے گھر سے نکالا جہاں پانی صرف چند گز کے فاصلہ پر تھا اور وہ زندگی سے مایوس ہو چکے تھے اپنی مثال آپ ہے، جس مقام پر ان کا گھر تھا وہاں سے پانی کی گہری ندی کو اپنی زندگی داﺅ پر لگا کر پانچ افراد کی زندگی بچانا صرف انھیں کو زیبا ہے۔اس مشکل ترین ٹاسک کی تکمیل کی داد دتو عالمی میڈیا نے بھر پور انداز میں دی ہے، قوم کے اس بہادر سپوت کا نام فرمان اللہ ہے جس کا تعلق دیر سے ہے، جس خطہ سے بانی الخدمت فاﺅنڈیشن پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم تھے، انھوں نے انسانی خدمت کے لئے یہ ننھا ساپودا لگایا جو اب نہ صرف تناور درخت بن چکا ہے بلکہ بہت سے دکھی انسانوں کو سایہ فراہم کر رہا ہے۔
الخدمت فاﺅنڈیشن نے تعلیم، صحت، صاف پانی، مواخات، کفالت یتامیٰ کے شعبہ جات میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،ارض وطن میں جب بھی خدانخواستہ کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو اس غیر سرکاری تنظیم کے رضا کار
متحرک ہوجاتے ہیں، کوئی بڑا حادثہ ہو تب بھی یہ طبقہ سرکاری اداروں کے ساتھ معاونت کے لئے ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔
کرونا کے عہد میں جب لوگ گھروں میں محصور تھے تو اس کے ورکرز تمام خطرات کے باوجود عوام کی دہلیز پر راشن پہنچانے میں مصروف رہے، یہ فریضہ بلا تخصیص انجام دیاتھا، مسجد، مندر، گوردوارہ میں کرونا سے بچنے کے لئے حفاظتی سپرے تک کرکے عبادت گاہوں کو محفوظ کیا، انکی یہ کاوش کو تمام طبقات نے سراہا تھا۔
علاج کے لئے شعبہ صحت میں جہاں لیباٹری ٹیسٹوں کے نام پر لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا، منہ مانگے دام مجبور مریضوں سے وصول کئے جاتے تھے، تو الخدمت کے کچھ ددر دل رکھنے والے افراد نے ڈائیگناسٹک سنٹرز قائم کئے اور ارزاں نرخوں پر معیاری ٹیسٹ رپورٹس فراہم کرکے عوام کو اس شعبہ میں ریلیف دیا۔ مذکورہ بڑے سنٹرز میں تو سٹی سکین، ایکسرے، الٹراساﺅنڈ،ایم آر ،آئی کی سہولت مریضوں کے لئے نصف نرخ پر میسر ہے، بجا طور یہ دکھی انسانیت کی بڑی خدمت ہے۔علاوہ ازیں بڑے شہروں میں اب الخدمت ہسپتال بھی قائم کئے جارہے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا پروجیکٹ ”آغوش“ ہے یہ اقامتی ادارے اِن یتامیٰ کے لئے قائم ہیں،جن کا سماج میں کوئی پرسان حال نہیں تھا، اچھے تعلیمی ماحول میں یہ بچے احساس محرومی کے بغیر زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں،سوشل میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض فارغ التحصیل ہو کر عملی زندگی میں شامل ہو کر قومی خدمت انجام دے رہے ہیں، زیادہ خوش آئند یہ ہے کہ یہ تمام تر نسلی، لسانی، گروہی، فروہی تعصبات سے پاک مزاج رکھتے ہیں ،الخدمت نے جس انداز میں انکی تربیت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، تاہم الخدمت نے سارے عمل کو صاف شفاف رکھا ہے، ان اداروں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق معروف شخصیات کو مدعو کر کے نسل کو زندگی میں آگے بڑھنے ملک وقوم کی خدمت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔الخدمت فاﺅنڈیشن پشاورنے نشہ کے عادی افراد کو گلیوں سے اٹھا کر علاج معالجہ کے بعد پھر سے معاشرہ کا بہترین فرد بنانے کا جوکارنامہ انجام دیا ہے وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔
اس کے روح رواں گجرات سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے امریکہ سے ایم، بی ۔اے کی ڈگری لی،وہ عالمی سطح پر بھی غیر سرکاری تنظیموں میں انسانی خدمت کا کام کرتے رہے ہیں، اب اہل وطن کی خدمت کا انھوں نے بیڑا اٹھایا اور احسن طریقہ سے ادا کر کے دعائیں سمیٹ رہے ہیں، میاں عبد الشکورکو دنیا کے 100افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو بہترین منتظم قرار پائے ہیں، انکی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے کہ الخدمت فاﺅنڈیشن پاکستان ایشیا کی دوسری اور عالمی سطح کی پانچویں بڑی غیرسرکاری تنظیم فلاحی تنظیم مانی جاتی ہے۔
انکے صدر کا کہنا ہے کہ بلا امتیاز ہماری خدمات ہندو، عیسائی، سکھ کیمونٹی کے لئے ہیں۔اس سرزمین پر رہنے والے ہمارے بھائی ہیں،اقلیتوں نے اپنی خوشی سے ہمارے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ اس پر نازاں ہیں، جب دیوالی کا تہوار آتا ہے،تو الخدمت سندھ میں ان ہندوﺅں تک پہنچتی ہے جن کے پاس مذہبی تہوار منانے کے پیسے نہیں ہوتے ،انھیں تحفے تحائف دیتے ہیں تاکہ وہ بھی دیگر کی طرح یہ دن خوشی سے منائیں۔باقی لوگوں کو ان کے ذریعے مثبت پیغام جائے، الخدمت ایسا ماحول بنانا چاہتی ہے جس کے ذریعہ پاکستان پھولوں کی نگری لگے۔یہ دھواں دھواں نظر نہ آئے۔
روایت ہے کہ ستر کی دہائی میں جب سیلاب آیا تو اس وقت ملک معراج خالد پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے وہ مختلف علاقہ جات میں دورہ کر رہے تھے، راوی کنارے لگے ریلیف کیمپوں کا دورہ بھی کیا،ایک کیمپ پر پیپلز پارٹی کا پرچم لگا تھا چند رضا کار موجود تھے ،راوی کے مطابق ملک خالد مرحوم نے جیب سے چند سو کے نوٹ نکالے اور رکھے ڈبہ میں ڈال دیئے،اگلے کیمپ پر پہنچے جہاں باریش بزرگ رسید بک پکڑے ایک میز کے پیچھے بیٹھے تھے ،وزیر اعلیٰ نے پوچھا کس کا کیمپ ہے بزرگ بولے جماعت اسلامی کا، انھوں نے سارے پیسے نکال کر میز پر ڈھیر کر دیئے، واپسی پر صحافیوں نے پوچھا کہ اپنی پارٹی کو چند سو جماعت اسلامی کو ہزاروں، جواب دیا اپنی پارٹی کو میں جانتا ہوں ،جماعت کو چندہ میں نے اپنی آخرت کے لئے دیا ہے۔ امانت اور صداقت کے اس معیار کو برقرارکھنے ہی کی بدولت آج ہر مکتبہ فکر الخدمت فاونڈیشن پر اندھا اعتماد کر رہا ہے، الخدمت کے ورکرز کی انتھک محنت ،لگن،ایمانداری، اور جذبہ انسانیت ہی نے کپتان کی سابقہ مغربی اہلیہ نے بھی اپنی حمایت کا وزن تحریک انصاف کے بجائے الخدمت کے پلڑے میں ڈالنے پر آمادہ کیا اورپیغام دیا ہے کہ امانتوں کے اہل یہی لوگ ہیں،جس جماعت اسلامی کی یہ ذیلی تنظیم ہے عوام کی جانب سے انتخاب میں اسکو نظر انداز کرنا غور طلب سوال ہے۔

تبصرے بند ہیں.