توہین عدالت کا مقدمہ؟

25

اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ خاصا دلچسپ رہا اور بظاہر یہ لگا کہ عدالت ملزم سے صفائی لینے کے بجائے اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔ عدالت نے عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سات روز کے اندر سوچ سمجھ کر دوبارہ جواب جمع کرانے کی اجازت دے دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم لارجر بنچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا تو عمران خان ذاتی حیثیت میں موجود تھے۔ معروف قانون دان حامد خان عمران خان کے وکیل کی حیثیت سے موجود تھے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ملزم کے وکیل نہیں بلکہ عدالت کے معاون بھی ہیں۔ عدالت نے عمران خان کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کو ناکافی اور غیر تسلی بخش قرار دیا اور کہا کہ ہمیں یہ امید تھی کہ آپ عدالت کے وقار کو بلند کرنے کی بات کریں گے مگر آپ نے تو عدالت کو ہی چیلنج کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے بات کرنا چاہی تو انہیں عدالت نے روک دیا کہ یہ معاملہ عدالت اور توہین عدالت کرنے والے کے درمیان ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، حامد خان آپ صرف عمران خان کے وکیل نہیں عدالت کے معاون بھی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ توقع یہی تھی آپ یہاں پر آنے سے پہلے ماتحت عدلیہ سے ہو کر آئیں گے، آپ کے تحریری جواب سے مجھے دکھ ہوا، جس ماتحت عدلیہ پر بات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت تھی، عام آدمی کو آج بھی ہائیکورٹ سپریم کورٹ تک رسائی نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس بنایا، گزرا ہوا وقت زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں جا سکتی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے، توقع تھی آپ عدالتوں میں جا کر کہیں گے آپ پر اعتبار ہے، عمران خان جیسے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ تشدد کا مسئلہ تو ہم نے بھی 3 سال سے اٹھایا، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی، کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ اسد طور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 3 سال میں یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی کاش اس وقت بھی یہ آواز اٹھاتے، جواب سے لگتا ہے کہ عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جو تحریری جواب جمع کرایا تھا اس میں کہیں ندامت کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض یہ لکھا گیا کہ میری نیت یہ نہیں تھی تاہم اگر یہ الفاظ توہین کے زمرے میں آتے ہیں تو وہ انہیں واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ شخص اپنے آپ کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والا یہ شخص عدالت کے روبرو یہ بھی کہتا ہے کہ اسے علم نہیں تھا کہ زیبا چودھری عدالتی افسر ہیں۔ روایت یہ رہی ہے کہ توہین عدالت کے مقدمات کے ملزمان معافی مانگتے ہیں اور خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن عمران خان تو عدالت سے بھڑنے کے موڈ میں ہیں۔ انہوں نے جو تحریری جواب جمع کروایا ہے اس میں یہ بات بھی لکھی کہ جن ججز نے ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا انہیں بنچ سے الگ کیا جائے کیونکہ وہ پہلے ہی ان کے خلاف دماغ بنا چکے ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ حامد خان اور بیرسٹر سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرایا تھا۔
شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا گیا کہ عدالت عمران خان کی تقریر کا سیاق و سباق کے ساتھ جائزہ لے۔جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے، عمران خان آزاد عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں اور استدعا کی کہ ان کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے جواب میں وضاحت کی گئی کہ مدعا علیہ کو غلط فہمی تھی کہ محترمہ زیبا چودھری ایک ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہیں جو وفاقی حکومت کے حکم پر ایگزیکٹو یا انتظامی فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ جواب میں کہا گیا کہ ‘اس غلط فہمی کے تحت انہیں مجسٹریٹ کہا گیا تھا، مدعا علیہ کا مطلب عدالتی افسر کو دھمکی دینا یا کوئی ایسی بات کہنا نہیں تھا جس سے عدالتی انتظامیہ کی بدنامی ہو۔ساتھ ہی پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا کہ حکومت شہباز گل کے بنیادی حقوق کی ‘خلاف ورزی اور انہیں پامال کرنے’ پر تلی ہوئی ہے۔جواب میں استدلال کیا گیا کہ مدعا علیہ کی طرف سے کوئی توہین نہیں کی گئی اور ڈپٹی رجسٹرار نے 20 اگست کو اسلام آباد کے F-9 پارک میں جلسہ عام کے دوران کی گئی تقریر سے چن کر لفظوں کا انتخاب کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ان الفاظ کو سیاق و سباق سے بالکل ہٹ کر لیا گیا اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ تاثر دینے کے لیے چھیڑ دیا گیا کہ گویا مدعا علیہ (عمران خان) قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ان کی تقریر سے یہ غلط تاثر لیا گیا کہ وہ عدلیہ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں جبکہ تقریر کا مقصد دراصل ‘قانون کی حکمرانی اور بنیادی حقوق کے بارے میں شعور اجاگر کرنا’ تھا۔جواب میں تسلیم کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی ماتحت عدلیہ کو درپیش خطرات کے بارے میں اپنے خدشات کو دور کرنے کے لیے شروع کی ہے لیکن یہ بھی کہا کہ ان کارروائیوں کو ‘وفاقی حکومت کے فائدے کے لیے سیاسی پوائنٹ سکورنگ’ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔پی ٹی آئی سربراہ نے الزام لگایا کہ توہین عدالت کی کارروائی ان اخبارات کے تراشوں کی بنیاد پر شروع کی گئی جو ان کے خلاف تھے۔ جواب میں کہا گیا کہ مدعا علیہ ‘جسمانی تشدد کا منظر’ دیکھنے اور پولیس کی حراست میں شہباز گل کے ساتھ ‘جنسی بدسلوکی’ کے بارے میں سننے کے بعد پریشان ہو گیا تھا۔
یہ وہ جواب ہے جو ہم نے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما مسلسل اسلام آباد ہائیکورٹ کو دھمکی دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز ہی سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ان کی جماعت نے مشکل سے عوام کو روک کر رکھا ہوا ہے اگر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کوئی فیصلہ آتا ہے تو پھر نتائج کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی نہیں ہو گی۔ نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کے مقدمات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس وقت ان کے خلاف فیصلہ ہوا اس وقت وہ مقبول نہیں تھے لیکن عمران خان اس وقت مقبول رہنما ہیں۔ کیا یہ عدالت کو ایک کھلی دھمکی نہیں اور کیا یہ بیان عدلیہ پر اثرانداز ہونے کے لیے نہیں دیا گیا۔ پی ٹی آئی قوم ملک اور اداروں کو مقبولیت کے زعم میں لتاڑنے کی مسلسل کوشش میں مصروف ہے۔ فواد چودھری نے کیا یہ نہیں کہا کہ آپ فیصلہ کریں عوام آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔
پی ٹی آئی لیبارٹری میں کیا گیا وہ تجربہ ہے جسے سیاستدانوں نے کسی جگہ ٹیسٹ نہیں کیا بلکہ جلد بازی میں اسے مارکیٹ کر دیا تھا اور اب اس کی تخلیق میں رہ جانے والے نقائص نظر آ رہے ہیں یا جان بوجھ کر اس کی پروگرامنگ میں یہ احکامات فیڈ کیے گئے تھے کہ نتائج اس کی مرضی کے برآمد نہ ہوں تو سارے نظام کو کس طریقے سے تہس نہس کرنا ہے۔ یہ وہ وائرس ہے جو تیزی کے ساتھ نظام میں جڑی اکائیوں کو تباہ و برباد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اور اس کا صرف یہی علاج ہے کہ ایسا انٹی وائرس لانچ کیا جائے جو اس کے بد اثرات کو معاشرے سے ختم کرے۔ وائرس بنانے والے سب سے پہلے اس کا توڑ نکالتے ہیں کہ اسے چھوڑنے کے بعد قابو کیسے پانا ہے وہ کون سی فائل اور فولڈرز ہیں جن کے ذریعے اسے غیر موثر کیا جائے۔ اس وائرس کے تخلیق کار آگے آئیں اور نظام کو بچانے کے لیے فائر وال کے ساتھ ساتھ اس وائرس کو غیر موثر کریں، ہمیں پورا یقین ہے کہ جن سائنس دانوں نے یہ تجربہ کیا ہے ان کے پاس ایسی فائلز ہیں جو اس کا توڑ چند منٹسں میں کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
آج کی سماعت میں بنچ کے ایک فاضل رکن نے ریمارکس دیے کہ عدالت آج ہی اس معاملہ کو نبٹانا چاہتی تھی مگر جو جواب جمع کرایا گیا ہے اس کی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑ گیا ہے۔ بصد ادب کیا یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی دوسرے فرد کو بھی اس طرح کی سہولت فراہم کی گئی جو عمران خان کو دی جا رہی ہے۔ فواد چودھری کے بیان اور آج کی سماعت کو دیکھ کر بہت سی باتیں سمجھ آ سکتی ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خلاف چلائی جانے والی مہم کے حوالے سے بھی ریمارکس دیے۔ ویسے فواد چودھری نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کی تھی کہ اگر وہ چیف جسٹس ہوتے تو شہبازگل پر ہونے والے تشدد پر معافی مانگتے۔ فواد چودھری کی بات کو پہلے ہم دیوانے کی بڑ سمجھتے تھے مگر اب لگتا ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں کہ یہاں کچھ ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کو ہاتھ لگانے سے پہلے کئی بار سوچا جاتا ہے۔ وہ دن گئے جب قانون اندھا ہوتا تھا اب قانون کو سب کچھ نظر آتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.