آپ یہ فیصلہ کر لیں!

28

”ردی والا، چھان بورے والا، لوئے لیلن والا“۔ اگر آپ پنجاب کے کسی گلی محلے میں رہتے ہیں تو آپ اس تجربے سے ضرور آشنا ہوں گے۔ صبح سویرے جو آواز سب سے پہلے کانوں میں پڑتی ہے وہ ردی والے کی ہوتی ہے۔ یہ ردی والے صبح سویرے اٹھ کر گلی محلوں میں آوازیں لگانا شروع کر دیتے ہیں، یہ خود کو ردی والا ہی ظاہر کرتے ہیں، یہ کبھی خود کو سبزی، پھل یا سونے چاندی والے ڈکلیئر نہیں کرتے۔ کیوں، اس لیے کہ یہ حقیقت پسند ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ہم ردی والے ہیں اور ہمیں ردی والا ہی سمجھا جائے گا، یہ جانتے ہیں کہ اس حقیقت کے بازار میں انہیں ردی کی قیمت ہی ملے گی، یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ردی کے علاوہ کوئی اور آواز لگائی تو سارا دن گھومنے کے باوجود انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ یہ صرف ردی کی بات نہیں اس دنیا میں ہر کسی کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ محنت کرتا ہے۔ ہر کام میں انسان اپنی اصل حیثیت کے مطابق قیمت پاتا ہے مگر ہمارے ہاں کچھ استثنیٰ موجود ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں ایسے لیڈر اور سیاستدان موجود ہیں جو ردی والا ہونے کے باوجود جوہری کی آواز لگائیں تو ان کا مال بک جاتا ہے۔ یہ حقیقت میں کباڑی والے ہیں مگر ان کو ایسے معتقدین ملے ہوئے ہیں جو ان کے ہر جھوٹ کو سچ سمجھ کر فوراً قبول کر لیتے ہیں۔ یہاں ہر لیڈر اور سیاستدان نے اپنے حصے کے بیوقوف اکٹھے کر رکھے ہیں، یہ سمجھتے ہیں صرف ان کا لیڈر پاکستان کا نجات دہندہ ہے۔ یہ حقیقت میں کباڑی والے ہیں، یہ قومی مجرم ہیں، یہ جھوٹے اور مکار ہیں، یہ رانگ نمبر ہیں مگر انہوں نے کمال ہوشیاری سے خود کو قومی لیڈر ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ بائبل میں جھوٹے نبی کی ٹرم استعمال ہوئی ہے اور یہ ایسے ہی جھوٹے لیڈروں اور کباڑی والوں کے بارے میں استعمال ہوئی ہے۔ جو لوگ ایک گاوں قصبہ کے انتظام کو سنبھالنے کے اہل نہیں ہم نے انہیں قومی لیڈر ڈکلیئر کر رکھا ہے، جن کے ضمیر انسانیت سے خالی ہیں ہم انہیں انسانیت کا نجات دہندہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جن کے دماغوں میں سوائے کرسی اور اقتدار کے اور کچھ نہیں ہم انہیں قوم کا محسن سمجھ رہے ہیں۔ جن کے اپنے بچے، گھر اور کاروبار باہر ہیں ہم انہیں پاکستان کا مخلص اور تعمیر و ترقی کا ضامن سمجھ رہے ہیں۔ پاکستان دیوالیہ ہو جائے، تین کروڑ لوگ سیلاب میں بہہ جائیں، لاکھوں گھر تباہ و برباد ہوں، ایک ہزار افراد سیلاب کی نذر ہو جائیں، لوگوں کے گھر بار سیلابی موجوں کی زد میں ہوں، خواتین اور بچے لاوارث ہو جائیں، لوگوں کی ساری زندگی کی جمع پونجی چشم زدن میں بہہ جائے اور لوگ خواتین اور بچوں سمیت کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہوں انہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کے بچے سلامت ہیں، ان کے گھر بار آباد ہیں، ان کی خواتین محفوظ ہیں، ان کے کاروبار اور بینک بیلنس بڑھ رہا ہے اور یہ اپنی باریاں، وزارتیں اور پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں۔
دوستو! یہ بے حسی کے پروردہ لوگ ہیں، یہ بے ضمیری کی معراج پر پہنچے ہوئے لوگ ہیں، یہ معمولی کباڑی والے ہیں، یہ ملک تو دور ایک چھوٹا سا ادارہ چلانے کے اہل نہیں ہیں، یہ لیڈری اور قیادت کے سانچے میں ڈھل کر نہیں نکلے، یہ انسانیت کا دکھ درد محسوس کرنے والی بھٹی سے نہیں گزرے، انہوں نے بے رحم حالات کے تھپیڑوں میں جینا نہیں سیکھا، یہ بے گھر ہونے کا درد محسوس نہیں کر سکتے، انہوں نے تنکا تنکا جوڑ کر اپنے ہاتھوں سے گھر نہیں بنائے، یہ زندگی بھر کی جمع پونجی چشم زدن میں بہہ جانے کا دکھ درد محسوس ہی نہیں کر سکتے۔ یہ خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے رات گزارنے کے کرب کو نہیں جان سکتے۔ یہ دھی رانی کے لیے ماں کے جوڑے برتن، بستر اور بکسوں کے بہہ جانے کا غم تصور میں نہیں لا سکتے۔ بھائیو! کم از کم اب تو ان کی لیڈری کے ہیجان سے باہر نکل آو، اب تو ان کے رانگ نمبر ہونے کا یقین کر لو، اب تو ان پر چار حرف بھیج کر کھرے اور کھوٹے کی پہچان کر لو۔
پاکستان میں 2010 میں بد ترین سیلاب آیا تھا، اس سیلاب میں تین ہزار جانیں سیلاب کی نذر ہوئیں اور قومی معیشت کو سولا ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ 2010 کے سیلاب میں متاثر ہو نے والوں کی تعداد 2004 کے سونامی، 2005 کے زلزلے اور 2010 کے ہیٹی کے زلزلے سے زیادہ تھی۔ یہ اتنا بڑا نقصان تھا کہ سیاستدانوں کو باقی تمام سرگرمیوں کو مو¿خر کر کے اس کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے تھی مگر ان کی بے حسی دیکھیں کہ ہم 2022 میں اس سے بھی بڑی تباہی سے دو چار ہیں۔ یہ اتنے بے حس لوگ ہیں کہ سال کے دس مہینے بیٹھ کر سیلاب کا انتظار کرتے ہیں اور جب سیلاب آتا ہے تو لانگ بوٹ اور جیکٹیں پہن کر متاثرین کی مدد کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ یہ پورے دس ماہ سیلاب سے نمٹنے کی پلاننگ نہیں کرتے لیکن جیسے ہی سیلاب آتا ہے یہ کھرپے اور بیلچے لے کر بند ھ باندھنے کے دوڑ پڑتے ہیں۔ 1910 میں فرانس میں سیلاب آیا تھا، فرانس کی حکومت نے اس پر ریسرچ کی، اس کے لیے لائحہ عمل طے کیا اور سیلاب کے قدرتی راستے میں آنے والی ساری زمینوں کو سیلاب کا حصہ بنا دیا، اس کے بعد فرانس میں کبھی سیلاب نہیں آیا۔ کیا وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ اداروں میں بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے بابوو¿ں کو نہیں پتا کہ پاکستان میں 75 فیصد بارشیں جون تا ستمبر میں ہو تی ہیں، کیا موسمیات کی وزیر شیری رحمان کو نہیں معلوم کہ ہمیں پہلے سے پلاننگ کرنے کی ضرورت تھی۔ کیا میک اپ کی بنیاد پر بہ تکلف جوان دکھنے والی بوڑھی شیری رحمان کے علاوہ کوئی اہل شخص اس وزارت کے لیے نہیں ملا۔ کیا یہ ملک بانجھ ہو چکا ہے کہ اہل افراد کا قحط پڑ گیا ہے۔ کیا ان جھوٹے نجات دہندوں کو نہیں معلوم کہ ہماری زمین کا ساٹھ فیصد حصہ سیلاب کی زد میں ہے، ہماری معیشت ہر سال قدرتی آفات کی وجہ سے 800 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرتی ہے۔ ہر سال گرمیوں میں ہمالیہ کی برف پگھلتی ہے، مون سون کی وجہ سے پانی میں اضافہ ہوتا ہے، پہاڑوں سے چشموں کا پانی دریاوں کی طرف بہنے لگتا ہے، بھارت میں ہونے والی بارشوں کا پانی بھی ہمارے دریاوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، ہماچل پردیش کی بارشوں اور پہاڑوں کا پانی بھی پاکستان کی طرف بہتا ہے اور کشمیر اور مشرقی پنجاب میں ہونے والی بارشوں کا بوجھ بھی پاکستانی دریاوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہ ساری حقائق پہلے سے معلوم شدہ نہیں تھے؟ پھر اس کے باوجود منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی؟ کاش سپریم کورٹ اس پر بھی سوموٹو لے، ذمہ داران کا تعین کرے اور انہیں دس بیس کے لیے نااہل کر کے جیل میں بھیج دے۔
میری آپ سے درخواست ہے کہ اب ان رانگ نمبرز کے ہیجان سے باہر نکل آئیں، آپ کباڑی والے اور جوہری کے فرق کو جان لیں، آپ کھرے اور کھوٹے کو پہچان لیں اور آپ آج یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے اپنی سابقہ بیوقوفی پر قائم رہنا ہے یا اپنے ملک اور اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے حقیقت پسند بننا ہے۔

تبصرے بند ہیں.