بارانِ رحمت یا باران زحمت… اللہ معاف کرے

17

ہمارے ہاں سرکاری اداروں سے متعلق ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ یہ بات عوامی خدمات سے متعلق سرکاری محکموں پر مکمل طور پر ثبت کی جاتی ہے۔ صحت، صفائی، امن عامہ، تعلیم اور ایسے ہی دیگر محکمہ جات سے متعلق کسی نہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ ایسے محکمہ جات جو عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں جن محکموں کے قیام و انصرام کا مقصدِ وحید عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہے لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے محکمے طاق طاق کر ایسا کچھ کرتے ہیں جس سے عوام کو صرف تکلیف ہی نہیں بلکہ ٹارچر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو دیکھ لیجئے۔ یہ کمپنیاں (DISCOS) عوام کو بجلی فراہم کرنے بلکہ نفع اندوزی کے لئے بجلی بیچنے کے لئے قائم کی گئی ہیں عوام ان کے خریدار یعنی گاہک ہیں ان کی پراڈکٹ (بجلی) کے خریدار ہیں اس کی قیمت ادا کرتے ہیں ان کی عزت کی جانی چاہئے بطور ’’گاہک‘‘ اچھی شے کی فراہمی ہی نہیں بلکہ ان کی توقیر بھی کمپنی کے فرائض میں شامل سمجھی جانی چاہئے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، بجلی کی فراہمی کے حوالے سے کس طرح عوام کو عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں ایک وقت تھا کہ لوڈشیڈنگ کا شیڈول ہوتا تھا عامۃ الناس کو پتا ہوتا تھا کہ ’’بجلی کب جائے گی اور کب آئے گی‘‘۔ عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کر لیتے تھے اب تو کسی کو کچھ پتہ نہیں کب آمد ہو گی اور کب نہیں ہو گی۔ اس پر مستزاد بلوں کا مسئلہ ہے بل میں بجلی کی قیمت کے علاوہ بہت سے ٹیکس شامل ہوتے ہیں جو قطعاً غیرقانونی ہوتے ہیں کبھی کبھار تو ان ٹیکسوں کا مجموعی حجم بجلی کی قیمت سے بھی تجاوز کر چکا ہوتا ہے۔ پانی اور گیس کے بلوں کی بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ویسے نادرا کے معاملات انتہائی اچھے اور صارف دوست ہیں نادرا کے معاملات میں ایک عرصے سے بہتری کی جا رہی ہے اور اس کے اثرات بڑے واضح انداز میں سامنے آ رہے ہیں۔ اسے حقیقتاً عوام دوست محکمہ کہا جا سکتا ہے۔ سلیوٹ ٹو نادرا۔ لیکن سرکاری محکمہ جات کی بڑی اکثریت کی کارکردگی صرف مایوس کن نہیں بلکہ انتہائی مایوس کن ہے اس سے عوام میں ایک قسم کی نفرت بڑھ رہی ہے۔
آج کل ہم بحیثیت قوم قدرتی آفت ’’سیلاب‘‘ کا شکار ہو چکے ہیں پہلے ہم خشک سالی کا رونا روتے تھے ہمارے ڈیموں میں پانی کی سطح کی شدید کمی تھی پانی کی دستیابی کے حوالے سے پریشانی کی صورت حال تھی لیکن جب اللہ رب العزت نے بارشیں برسانا شروع کیں تو ہماری چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس مرتبہ بارشوں کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس باران کو بارانِ رحمت کہوں کیونکہ اس نے ہماری خشک زمینوں کو سیراب کیا ہے اور خالی ڈیموں کو بھرا ہے یا اسے ’’بارانِ زحمت‘‘ کہوں کیونکہ ان بارشوں نے صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے بہت سے علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔ ان بارشوں سے 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، 4 لاکھ 13 ہزار مکانات برباد ہوئے، 116 اضلاع میں تباہی مچی، 129 پل، 2886شاہراہیں سیلابی پانی کی نذر ہو گئیں۔ یہ معلومات نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ ہیں۔ صوبائی زمینی رابطے منقطع ہو چکے ہیں۔ حکومت اور اس کے نمائندے کہیں نظر نہیں آ رہے۔ ہماری دینی جماعتیں شاید کہیں ریلیف آپریشن میں مصروف ہوں کہیں لنگر خانے چل رہے ہوں متاثرین کی امداد کی جا رہی ہولیکن وہ سب کچھ منظرعام پر نہیں ہے منظر عام پر بپھرا ہوا سیلاب، سیلابی ریلے سب دیکھ رہے ہیں۔ ایک محکمہ بڑی تندھی کے ساتھ مصروفِ عمل ہے اور وہ ہے ’’فلڈ وارننگ سینٹر‘‘ جسے کلکٹر محکمہ بھی کہتے ہیں یہ بارشوں اور سیلابوں کی اطلاع دیتا ہے وہ ہمیں تواتر کے ساتھ اطلاعات دے رہا ہے کہ بارشیں ہوں گی۔ بہت بارشیں ہوں گی۔ دریائوں میں بہتا پانی کب اور کتنا کہاں سے گزرے گا، بھارت نے کتنا پانی اچانک چھوڑ دیا ہے وغیرہ وغیرہ اس محکمے کی پیش گوئی ہے کہ بارشوں کا سلسلہ ابھی تھمے گا نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر ہم سے ناراض ہے اسے ہماری ادائیں پسند نہیں اسی لئے بارانِ رحمت، ہمارے لئے بارانِ زحمت بن چکا ہے۔
حکومتیں، ہر سطح پر ناکام اور نااہل ثابت ہو چکی ہیں اس میں بات حالیہ یا ماضی کے حکمرانوں کی نہیں ہے حکومت یا حکومتیں بحیثیت مجموعی ایسی ہی ہوتی ہیں۔ سرکاری مشینری ایک روڈ رولر کوسٹر کی طرح ہوتی ہے جو بہت ہی آہستہ آہستہ چلتی ہے اسے معاملات اور مسائل سے غرض نہیں ہوتی ہے وہ اپنی ہی رفتار سے اپنے ہی انداز میں کام کرتی ہے یاد رہے یہ بات پاکستان اور اس کے صوبوں سے متعلق ہے وگرنہ دنیا میں حکومتیں ترتیب ہی عامتہ الناس کی بھلائی کے لئے دی جاتی ہیں سیاسی عمل اور سیاستدان بھی عوامی فلاح و بہبود کے لئے وقت ہوتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے انفرادی طور پر کسی حکمران کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے سیلابوں میں عوامی دیکھ بھال کے حوالے سے اور عوامی مشکلات کے حوالے سے شہباز شریف کی ذاتی شہرت اچھی ہے اور بجا طور پر اچھی ہے وہ فعالیت کے ساتھ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر چلتے ہیں لیکن ہم تو حکومت اور حکمران، سیاست اور سیاستدان کے حوالے سے مجموعی رویوں کی بات کر رہے ہیں جو انتہائی شرمناک ہیں۔
عوامی سطح پر بھی معاملات ایسے ہی ہیں اس سے پہلے جب ایک زلزلہ آیا تھا تو ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے اتفاق اور امداد کی عالیشان مثالیں قائم کیں امدادی قافلے اور ٹرکوں کی لائنیں جائے زلزلہ کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ عام شہری سے لے کر تاجروں، دکانداروں، کاروباری حضرات، غرض معاشرے کے ہر طبقہ فکر نے متاثرین زلزلہ کی امداد کے لئے دل کھول کر عطیات دیئے۔ گلی گلی، محلہ محلے، گائوں گائوں اور شہر شہر متاثرین زلزلہ کی امداد کا غلغلہ بلند ہو گیا تھا۔ پوری قوم بحیثیت مجموعی زلزلہ زدگان کی دادرسی امداد اور بحالی میں مصروف نظر آ رہی تھی۔ دینی جماعتیں بالخصوص ریلیف کے کام میں جُتی ہوئی تھیں۔ عامتہ الناس ان کے کام کا تقابل کیا کرتے تھے جسے دیکھو کچھ نہ کچھ لئے امدادی کیمپوں میں جمع کرانے کے لئے مصروف عمل ہے نیکی کا ایک ہالہ پورے معاشرے میں چھایا ہوا تھا لیکن اب کیا ہے؟
ایسے لگ رہا ہے کہ خیر کہیں گم ہو گئی ہے کچھ لوگ سیلاب زدگی کا شکار ہیں اور باقی بے حسی اور ناتوانی کا شکار ہو گئے ہیں کسی کو خبر نہیں کہ اہل وطن پر کس قسم کی افتاد آن پڑی ہے ہمیں قہر خداوندی کا اندازہ بھی نہیں ہے اور احساس بھی نہیں ہے ہمارا میڈیا عمران خان، نوازشریف، شہباز شریف، زرداری اور ایسے ہی معاملات پر فوکس کئے ہوئے ہے۔ عمران خان کو سزا ہو گی کہ نہیں؟ عمران خان نااہل ہو گا کہ نہیں؟ عمران خان گرفتار ہو گا کہ نہیں؟ نوازشریف کب واپس آئیں گے؟ واپسی کے بعد جیل جائیں گے یا نہیں؟ جنرل باجوہ کو مزید توسیع ملے گی کہ نہیں؟ اگلا آرمی چیف کون ہو گا؟ ایسے ہی سوالات ہمارے میڈیا کے ذریعے موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ معاشرہ بے حسی کے بڑے مقام پر فائز نظر آ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ قدرت ہم سے ناراض ہو چکی ہے۔ بارانِ رحمت، بارانِ زحمت بن چکا ہے۔ رب لایزل کی ناراضی ہم پر حقیقی زحمت بن کر برس رہی ہے ہم بے حس اور بے پروا اپنی ہی دھن میں لگے ہوئے ہیں حالات ٹھیک نہیں ہیں اللہ بھی خیر کرتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ ہم صدقِ دل سے اللہ توبہ کریں اور اللہ کی رحمت کے طلبگار ہو جائیں۔

تبصرے بند ہیں.