مکافات عمل

14

ازل سے ہے مکافات عمل کاسلسلہ قائم،رلایاجس نے اوروں کووہ خودبھی چشم ترہوئے۔مکافات عمل یہ توقدرت کاایک اٹل اصول ہے،دنیاکے قاعدے اورضابطے توتبدیل ہوتے رہتے ہیں لیکن قدرت کاقانون۔۔؟ ہمیشہ قانون ہی رہتاہے۔ جیساکروگے ویسابھروگے،یہ توقدرت کاایک ایساقانون اورانصاف ہے جسے آج تک نہ کوئی چیلنج کرسکاہے اورنہ ختم۔ازل سے ادلے کابدلہ جاری ہے اورتاقیامت یہ اسی طرح جاری رہے گا۔اسی لئے توکہتے ہیں کہ جوبیج بوﺅگے وہی پھرکاٹوگے،جوسلوک دوسروں کے ساتھ کروگے ویساہی سلوک پھرتمہارے ساتھ بھی کیاجائے گا۔دوسروں کے راستے میں اگرکانٹے بکھیروگے توتمہیں بھی پھرانہی کانٹوں پرچلناپڑے گا۔کہتے ہیں مکافات عمل دستک نہیں دیتی اورنہ ہی اسے کسی درکے کھلنے کاانتظاررہتاہے۔یہ توجہاں جاتی ہے اپنے لئے دروازے کھول لیتی ہے۔اب بھی اگرکسی کومکافات عمل کی صحیح سمجھ نہ آئے تووہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اوران کے چیف آف سٹاف مسٹرشہبازگل کی بے بسی اوربے وسی کوذرہ آنکھیں کھول کر دیکھ لیں۔اقتدارکے نشے میں مست ہوکرعمران خان اوراس کے کھلاڑی کل تک جوکام سیاسی مخالفین کے ساتھ کررہے تھے آج وہی کام خودان کے ساتھ ہورہاہے۔کل تک پاکستانی بادشاہت کاسرٹیفکیٹ ہاتھ میں لئے پھرنے والے کپتان کی اس سے بڑی بے بسی ولاچارگی اورکیاہوگی کہ اپنے ایک پارٹی رہنماءسے ملنے کے لئے بھی انہیں این آراونہیں مل سکا۔کل تک جواین آراوکی پوری مشین جیب میں لئے پھرتے تھے اب وہ خودایک۔۔ صرف ایک این آراوکے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔وہ مسٹرشہبازگل جوکل تک دوسروں کی مجبوری،بے بسی،لاچاری اوربیماری کامذاق اڑایاکرتے تھے آج خودوہ ایک مذاق بن کررہ گئے ہیں ۔بوئے گئے بیج کاٹنے اورجیساکروگے ویسابھرنے کایقین توسب کوتھالیکن وقت اس قدرجلدی پلٹاکھائے گایہ کسی نے سوچابھی نہ تھا۔تین چارمہینے پہلے جودولت،طاقت اوراقتدارکے نشے میںفرعون بن کرپھراکرتے تھے وہ آج دردرکے سوالی بن کرپھررہے ہیں۔کل تک جس ایف آئی اے،نیب اورپولیس فورس کے جوانوں کووہ مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اوراپنے دیگرسیاسی مخالفین کے پیچھے
دوڑایاکرتے تھے آج اسی نیب،ایف آئی اے اورپولیس کے جوان ان کے پیچھے دوڑرہے ہیں۔جوہتھکڑیاں انہوں نے دوسروں کولگائی تھیں آج وہی ہتھکڑیاں ان کے اپنے گلے کاہاربن رہی ہیں۔حوالات اورجیلوں کے جوکمرے انہوں نے سیاسی مخالفین کے لئے رنگ وروغن اور مختص کردئیے تھے آج وہی کمرے ان کے قیدخانے بن رہے ہیں۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ جوشہبازگل دوسروں کی بیماری کامذاق اڑاتے پھررہے ہیں کل کویہ خودوہیل چیئرپردوسروں کودہائیاں دیتاپھرے گا۔ہم نے توبہت پہلے اس وقت اوردن سے ان کوآگاہ کردیاتھالیکن افسوس۔دولت،طاقت اوراقتدارکے نشے میں یہ اس قدرگم،اندھے اورغافل ہوگئے تھے کہ ان کے لئے یہ دھکے ضروری ہوگئے تھے۔ لاتوں کے بھوت جب باتوں سے نہیں مانتے توپھرانہیں اسی طرح کی لاتیں ہی پڑتی ہیں۔یوں توہرانسان مکافات عمل سے گزرتاہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان اورشہبازگل جیسے لوگوں کامکافات عمل سے گزرنااس لئے بھی لازمی ہوتاہے کہ ان کی آنکھیں کھل اورہوش ٹھکانے آئے۔کپتان کویہ دھکے اورشہبازگل کویہ لاتیں نہ پڑتیں توان کوکیسے پتہ چلتاکہ سیر اور سوا سیر کیا ہوتاہے۔؟یہ بے چارے توکہیں یہ سمجھ رہے تھے کہ جوکچھ ہیں وہ ہم ۔صرف ہم ہیں۔ان کوتویہ نہیں پتہ تھاکہ اوپربھی کوئی ہے۔اوپرتووہ ہے جو سب سے اوپرہے۔اس کے ہاں دیرہے پر اندھیر نہیں۔ اس کی لاٹھی بے آوازضرورہے لیکن جب وہ کسی پرپڑتی ہے توپھراس لاٹھی کے نیچے آنے والے کی آواز،چیخ وپکاردور،بہت دورتک سنائی دیتی ہے۔یقین نہ آئے توشہبازگل کودیکھ لیں۔کپتان اوراس کے کھلاڑیوں کویقینناًیہ بات اب سمجھ آئی ہوگی کہ اوپروالے کی وہ بے آوازلاٹھی کیسے پڑتی ہے۔ دولت، طاقت اور اقتدار کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ فرعون بن جائیں۔ جو فرعون بنتے ہیں ان کاپھریہی انجام تو ہوتا ہے۔ کپتان اوران کے کھلاڑیوں کے ساتھ اس وقت جوکچھ ہورہاہے یہ توہرحال میں ہوناہی تھا۔ابھی توایک شہبازگل مکافات عمل سے گزرنے لگے ہیں۔کپتان کوتواس دن سے ڈرناچاہئیے جب وہ خوداوران کے باقی تمام کھلاڑی بھی مکافات عمل سے گزرکردنیاکے سامنے تماشابنیں گے۔کپتان کی حکمرانی میں درود شریف سے اپنی تقریروں کا آغاز کرنے والے یا باو ضوہوکردوسروں پرظلم ڈھانے والوں سمیت جس جس نے بھی جوبیج بویااب انہیں وہ کاٹناپڑے گا۔بحیثیت مسلمان ہمارایہ ایمان اورعقیدہ ہے کہ مکافات عمل کایہ سلسلہ صرف شہبازگل پرنہیں رکے گابلکہ نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی،جے یوآئی،ایم کیوایم اورعوامی نیشنل پارٹی سمیت نہ صرف تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں بلکہ دنیاجہان کے شہبازگلوں اور گلوبٹوں کوبھی مکافات عمل کے اس پل اوردریاسے ایک نہ ایک دن ہرحال میں اسی طرح گزرناپڑے گا۔ انسان زندگی میں جوکچھ کرتاہے یابوتاہے آخرت کاحساب کتاب تواپنی جگہ اس انسان کوپھراس دنیامیں بھی ایک نہ ایک دن وہ کاٹناپڑتاہے۔کپتان اوران کے کھلاڑیوں کوکسی اورسے گلہ یاکوئی شکوہ کرنے کی بجائے ایک باراپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئیے۔ یہ جوفصل آج یہ کاٹ رہے ہیں کہیں یہ وہی فصل تونہیں جس کے بیج انہوں نے ساڑھے تین چارسالوں میں مسلسل بوئے تھے۔یہ سیاست میں ذاتی دشمنی تک نہ جاتے توآج ان کے خلاف بھی کوئی اس حدتک کبھی نہ جاتے۔آج جولوگ یہ رونارورہے ہیں کہ کپتان اوران کے کھلاڑیوں کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے وہ ٹھیک نہیں ۔انصاف کے ان یاایسے علمبرداروں سے صرف ایک سوال ہے کہ جوکچھ کپتان کی حکمرانی میں اس ملک کے اندرروزانہ ہورہاتھاکیاوہ ٹھیک تھا۔۔؟اپنے ہرسیاسی مخالف پرچور،ڈاکو،کرپٹ،بے ایمان اورغدار کالیبل لگاکرانہیں اندرکرنایاکورٹ کچہریوں میں دنیاکے سامنے ذلیل کرنااگرٹھیک تھاتوپھروہی کام اورسلوک آج غلط کیسے ہوا۔۔؟کپتان کواب توسمجھناچاہئیے کہ سیاست ذاتی دشمنی اورانتقام کانام نہیں ۔ہم پہلے بھی بہت بارکہہ چکے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ انسان کووہاں تک کبھی نہیں جاناچاہئیے جہاں سے پھرواپسی کاکوئی راستہ ہی نہ ہو۔بلاکسی شک وشبہ کے ایک سیاسی جماعت وپارٹی کے سربراہ اورایک قومی لیڈرہونے کے باوجودعمران خان سیاست میں جس انتہاءپرگئے کسی بھی پارٹی کے قائد اورلیڈرکواس مقام تک ہرگزہرگزنہیں جاناچاہئیے۔یہ کرسی آنی جانی چیزاوراقتدارآنے جانے کاایک کھیل ہے۔ہرآنے والاجانے کے لئے ہی آتاہے۔ہمیشہ کی حکومت اوربادشاہت توفقط ایک خداکی ہے۔دنیاکے سارے حکمران تواسی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ عمران خان سے پہلے کتنے آئے اورگئے۔؟کیاکوئی حکمران اورلیڈراقتدارسے ہٹانے کے غم اور درد میں اس انتہا تک کبھی گےاجس مقام پرآج کپتان کھڑے ہیں۔؟کپتان اوران کے کھلاڑیوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ دنیامکافات عمل ہے یہاں جیساکروگے ویساپھربھروگے۔

تبصرے بند ہیں.