سیلاب کی تباہ کاریاں اور سیاسی منظر نامہ

18

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے۔عوام الناس کی دلچسپی کے پیش نظر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی سیاسی پروگراموں، خبروں اور تبصروں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر اس پہلو کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ میڈیاکا بیشتر وقت اور سپیس سیاسی پروگراموں اور خبروں کیلئے مختص ہوتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے اہم اور حساس معاملات عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ سماجی مسائل کو بھی وہ اہمیت نہیں ملتی جو اصولی طور پر ملنی چاہیے۔ یہ صورتحال اب معمول بن چکی ہے۔ آج کل بھی ہمارامیڈیا شعوری، لاشعوری طور پر یہی کر رہا ہے۔ کوئی بھی ٹی وی چینل اٹھا کر دیکھیں اس میں شہباز گل کی گرفتاری کی خبر زیر بحث دکھائی دیتی ہے۔ یہ سلسلہ کئی دن سے جاری ہے۔ شہباز گل پر الزام ہے کہ انہوں نے فوج کے اہلکاروں کو سر عام بغاوت کی ترغیب دی۔ اب شہباز گل قانون کی گرفت میں ہیں۔ اصولا اس معاملے کو قانونی طریقہ کار کے مطابق حل ہونے دیا جائے۔ اگر کوئی زیادتی ہوتی ہے تو میڈیا اس معاملے پرضرور آواز بلند کرئے۔  شہباز گل سمیت کسی بھی شخص کے خلاف ہونے والی ناجائز کاروائی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ 
گزشتہ کئی دن سے بلوچستان، سندھ اور ملک کے دوسرے حصوں میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ میڈیا کو سیلاب کی تباہ کاریوں پر بات کرنے کی فرصت کم ہی ہے۔ بلوچستان اس صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہے۔ابھی تک خواتین اور معصوم بچوں سمیت 196 بلوچ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے راستے بند اور رابطے معطل ہیں۔ مختلف حادثوں میں بھی 81 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس قدرتی آفت کے نتیجے میں پانچ ہزار مکان مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں۔ جبکہ پندرہ ہزار کے قریب مکانوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں بھی پانی نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔وہاں بھی ہزاروں شہری متاثر ہوئے ہیں۔مختلف جگہوں پر یہ واقعات بھی رونما ہوئے کہ سیاحت کی غرض سے دوسرے صوبوں  سے آنے والے افراد اپنی گارٰوں سمیت طوفانی سیلاب اور بارشوں میں پھنس گئے۔ کئی سیاحوں کی گاڑیاں سیلابی پانی میں بہہ گئیں۔ کئی شہری گاڑیوں سمیت سیلاب میں بہہ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی میڈیا اس صورتحال کی خبریں ناظرین اور قارئین تک پہنچا رہا ہے۔ لیکن میڈیا کی زیادہ تر توجہ ایک شخص کی گرفتاری پر مرکوز ہے۔ میڈیا کو دیکھ کر تاثر ملتا ہے جیسے میڈیا کے نزدیک غریب شہریوں کی ہلاکت، ان کے مکانوں کا منہدم ہونا، عورتوں اور بچوں کا آفت میں پھنس جانا اتنا اہم نہیں، جتنا اہم سیاسی معاملات پر بات کرنا ہے۔ 
سیاستدانوں کا حال بھی میڈیا سے مختلف نہیں ہے۔ ایک طرف بلوچ اور دیگر صوبوں کے شہریوں پر آفت ٹوٹی ہوئی ہے، دوسری طرف جلسے جلوس جاری ہیں۔ طویل پریس کانفرنسیں ہورہی ہیں۔ رنگ برنگے بیانات دئیے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں کے طرز عمل کو دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے جیسے  چند سو شہریوں کی ہلاکت۔ چند ہزار خاندانوں کا  بے گھر ہو جانا ان کے نزدیک کوئی بات ہی نہیں۔ بہت اچھا ہو اگر میڈیاسیلاب متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں کی ترغیب دے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے جلسے کرنے والے سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ یہ رقم متاثرین میں تقسیم کریں۔
یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب آنا برسوں کا معمول ہے۔ لیکن حکمرانوں نے بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے ڈیم اور پانی کے ذخائر بنانے کی طرف توجہ نہیں دی۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ بھارت نے حسب معمول پاکستان کی طرف پانی چھوڑ دیا ہے۔راوی میں بھی پانی کی سطح حد سے زیادہ بڑھنے کے خدشے کا اظہار ہو رہا ہے۔ ایک طرف ملک میں پانی کی شدید قلت ہے۔مثال کے طور پر تھر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہلاکتیں ہو تی ہیں۔ جانور بھی مرتے ہیں۔ یہی حال بلوچستان اور دیگرصوبوں اور شہروں کے کئی علاقوں کا ہے۔ یعنی ایک طرف عوام پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ دوسری طرف پانی اس قدر وافرمقدار میں موجود ہے کہ سیلاب کی صورت میں غضب ڈھاتا ہے۔ برسوں سے ماہرین نوحہ کناں ہیں کہ ہمیں ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔یقیناہمارے ہاں ڈیم بننے چاہیے تھے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو نعرے بازی سے فرصت نہیں۔
 افسوس کہ ہمارے ہاں قومی منصوبے تک سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سیاستدانوں کے اختلافات کی وجہ سے آج تک یہ ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا۔ کسی فوجی حکمران نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ آج کالا باغ سمیت دیگر ڈیم بن گئے ہوتے تو پاکستان کے حالات  مختلف ہوتے۔ لوگ پانی کو ترس رہے ہوتے اور نہ ہی بارشوں اور سیلاب کا پانی یوں سرعام تباہی کا باعث بن رہا ہوتا۔کچھ اعداد و شمار میری نگاہ سے گزرے۔ پتہ یہ چلا کہ پاکستان میں ایک سو پچاس ڈیم موجود ہیں۔ جبکہ بھارت نے پانچ ہزار سے زائد ڈیم تعمیر کر رکھے ہیں۔ ہمارے اہل سیاست ان تمام معاملات سے بے نیاز سیاسی اختلافات میں الجھے ہیں۔ان کی توجہ ایک دوسرے کو نااہل کروانے۔ ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے۔ ایک دوسرے کو میدان سیاست سے باہر کرنے تک محدود ہے۔ ایسے میں بارشوں اور سیلاب متاثرین اور ڈیموں کی تعمیر کی جانب کون توجہ مرکوز کرئے۔ 

تبصرے بند ہیں.