تحریک ِ پاکستان چند یادیں …… کچھ ملاقاتیں

7

تاریخ نویسی میں افراد کی یادداشتیں‘ خود نوشتیں‘ خطوط اور ڈائریاں بنیادی ذرائع معلومات تصور کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے ہاں ان چیزوں کا رواج نہیں رہا۔ تحریک پاکستان ہی کے سلسلے میں دیکھا جائے تو تحریک میں شریک قائدین اور کارکنوں نے اس سے اغماض ہی برتا۔ قائدین میں سے تو چوہدری خلیق الزمان‘ چوہدری محمد علی اور سردار شوکت حیات کے علاوہ شاید ہی کسی نے اس طرف توجہ کی ہو۔ کارکنوں کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک تحریک پاکستان کی کوئی جامع اور منضبط تاریخ نہیں لکھی جاسکی۔ جب کہ بھارت نے سرکاری طورپر اس کا اہتمام کیا۔
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف ریاض احمد چودھری امرتسر کے رہنے والے ہیں اور اپنے زمانہئ طالب علمی سے تحریک پاکستان سے وابستہ تھے۔ پاکستان آنے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ملک کے معروف اخبارات سے وابستہ رہے۔ اس حیثیت میں انھیں سیاسی اکابرین اور اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ملی۔ وہ بہت سے معاملات کے عینی شاہد اور بہت سے راز ہائے درون خانہ کے امین ہیں۔
یہ کتاب بنیادی طور پر تین حصوں میں منقسم ہے۔ (۱) تحریک پاکستان‘ (۲) قیام پاکستان اور (۳) مختلف شخصیات کے بارے میں۔
ہجرت کے موقع پر پیش آنے والے واقعات اندوہناک اور دلدوز تھے‘ وہ لکھتے ہیں:
چودہ اگست کو بلوچ رجمنٹ نے فیصلہ کیا کہ امرتسر سے مسلمانوں کی پہلی ٹرین شام آٹھ بجے روانہ ہوگی۔ سکھوں نے راستے میں چھ ہرٹہ اور خالصہ کے مقامات پر اس ٹرین پر حملے کیے۔ لیکن بلوچ رجمنٹ کی جوابی کارروائی سے وہ منتشر ہوگئے۔ اٹاری تک سکھوں نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس ٹرین پر فائرنگ کی‘ بالآخر یہ ٹرین رات گئے لاہور پہنچ گئی۔ پہلی ٹرین چار گھنٹوں میں ہربنس پورہ سے والٹن ریلوے سٹیشن 
پہنچی۔ ہجرت کے دوران لوگوں میں بہت خوف و ہراس تھا۔ اتنی زیادہ بچیاں قتل ہوئیں کہ اللہ کی پناہ۔ کئی نے کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں۔ لوگوں میں تڑپ تھی کہ اسلام کے نام پر بننے والی پاک سرزمین پر ہر صورت جانا ہے۔ (ص۵۴۔۷۴)
اس کا سبب وہ یہ بتاتے ہیں کہ:
مشرقی پنجاب سے مہاجرین کی بہت زیادہ تعداد کی آمد کی ایک وجہ ریڈکلف کمیشن کی غلط تقسیم تھی۔ غلط تقسیم کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ گورداسپور مسلم اکثریت کا علاقہ تھا اور پاکستان میں شامل ہونا تھا جس پر گورداسپور سے آنے والے لوگ جسٹر کے مقام پر راوی پل کے ذریعے پاکستان آئے۔ اس علاقے میں بہت قتل و غارت ہوا۔ دریائے راوی کا پانی سرخ ہوگیا تھا۔ دریائے بیاس بھی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ لوگ لاشوں کو بہا دیتے تھے۔ جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا بیان سے باہر ہے۔ (ص ۴۵)
چودھری صاحب کے بقول”قیام پاکستان کے وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ (ص ۴۵) اور مشرقی پنجاب اور دیگر مسلم اقلیتی علاقوں سے تقریباً ستر لاکھ مسلمانوں نے ہجرت کی(ص ۵۵)۔
ریڈیو سے قیام پاکستان کے اعلان کے بارے میں وہ یہ تفصیلات مہیا کرتے ہیں:
چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات لاہور، پشاور اور ڈھاکا سٹیشنوں سے رات ۱۱ بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا۔ بارہ بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اور ظہور آذر کی آواز میں انگریزی زبان میں فضا میں ایک اعلان گونجا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت معرض وجود میں آ جائے گی۔ رات کے ٹھیک بارہ بجے لاکھوں سامعین کے کانوں میں پہلے انگریزی اور پھر اردو میں یہ الفاظ گونجے یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے
انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر نے اور اردو میں یہ اعلان مصطفی علی ہمدانی نے کیا۔ اس اعلان کے فورا بعد مولانا ظاہر القاسمی نے قرآن مجید کی سورۃ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں۔ جس کے بعد ان کا ترجمہ نشر کیا گیا۔ بعد ازاں خواجہ خورشید انور کا مرتب کیا ہوا ایک خصوصی سازینہ بجایا گیا۔ پھر سنتو خاں اور ان کے ہم نواؤں نے قوالی میں علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ کے چند بند پیش کئے۔ (ص ۹۴)
نوزائیدہ مملکت کو سخت مالی بحران کا سامنا تھا۔ فاضل مصنف اس حوالے سے رقمطراز ہیں:
اس بارے میں علامہ اسد نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا ” کابینہ کے سیکرٹری چوہدری محمد علی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے اندازہ ہوا کہ حکومت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے۔ انھوں نے بتایا:” قائداعظم نے امیر ترین مسلمان حکمران نظام حیدر آباد دکن سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کو سونے چاندی کی شکل میں چند لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ ادھار دیں اور انھیں اپنے نام پر ہی بنک میں جمع کرادیں تاکہ پاکستانی کرنسی کو تحفظ مل سکے۔ لیکن نظام، دولت کے انبار اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے قائداعظم کی درخواست کو رد کردیا "۔ چند ماہ بعد ہی ہندوستان نے حیدر آباد کی خود مختار حیثیت ختم کرکے اپنے ملک کا حصہ بنا لیا اور نظام کے سونے چاندی کے تمام ذخیرے بھی ہندوستانی حکومت کے تصرف میں چلے گئے۔(ص ۵۵۔۶۵)
قیام پاکستان کے بعد انھوں نے ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار کا احاطہ کیا ہے۔ شخصیات میں دینی و سیاسی اور سماجی شخصیات شامل ہیں۔ بعض سے تو انھیں ملاقاتوں کے مواقع میسر تھے اور بعض سے صرف عقیدت تھی اور اسی حوالے سے ان کا تذکرہ شامل ہے۔ دینی شخصیات میں مولانا مودودی‘ محمد اسد (نو مسلم)‘ ڈاکٹر حمید اللہ‘ مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر لوگ شامل تھے۔ سیاسی شخصیات میں مولانا کوثر نیازی‘ ڈاکٹر نذیر احمد‘ جنرل ضیاء الحق‘ محمودعلی‘ نواب آف کالا باغ شامل تھے۔
کتاب مجموعی طور پر دلچسپ اور معلومات افزا ہے۔ بزم اقبال نے اسے کمپیوٹر کمپوزنگ میں سفید کاغذ پر طبع کرایا ہے‘ جلد مضبوط اور گردپوش دیدہ زیب ہے۔

تبصرے بند ہیں.