جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم، لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں!

59

سابق صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی 34ویں برسی کے موقع پر لکھتے ہوئے مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم معروف معنوں میں ایک فوجی آمر تھے جو 5جولائی 1977ء کو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسراقتدار آئے اور پھر 17اگست 1988کو بہاولپور کے قریب پاک فضائیہ کے C-130طیارے کے حادثے میں اپنی شہادت کے وقت تک اس ملک کے خود مختار حکمران رہے۔ اُن کی شہادت کو 34برس کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود جبکہ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے، ملکی حالات و واقعات میں کئی تبدیلیاں ہی نہیں آ چکی ہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کی سوچ و فکر بھی تبدیل ہو چکی ہے، مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ جنرل محمد ضیاء الحق ایک فوجی آمر ہونے کے باوجود ایک ایسے حکمران تھے جن کے بارے میں آج بھی میرے دل میں پسندیدگی کے جذبات ایسے ہی موجود ہیں جیسے 34برس قبل ان کی شہادت یا اس سے قبل ان کے دورِ حکومت میں موجود تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے 17اگست کو ان کی برسی کے موقع پر ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ سطور ضرور قلم بند کرتا ہوں۔ یہ بات مجھ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے طویل مارشل لائی دور حکمرانی میںکئے جانے والے فیصلوں ، اقدامات اور انداز حکمرانی کی بنا پر جہاں بعض حلقے ان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیںتو وہاں ایسے بھی بہت سارے حلقے ہیں جو 17اگست 1988کو ان کی شہادت کے بعد سے تقریباً 33/34برس کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں اور جہاں ان کا نام محبت اور احترام سے لیتے ہیں وہاں مرد مومن، مرد حق ضیا الحق کے نعرے لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
جنرل محمد ضیاء الحق کو کوئی کچھ بھی سمجھے ان کو فوجی آمر کہیں یا کچھ اورلیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں ضیاء الحق کے متفقین اور مخالفین سبھی کا اِتفاقِ رائے سامنے آئے گا کہ ضیاء الحق میں بہت ساری شخصی خوبیاں پائی جاتی تھی۔ وہ بڑی حد تک عاجزی ، انکساری، مروت اور دوسروں کا احترام کرنے اور اُن کی عزت ِ نفس کا پاس کرنے کی صفات سے بہرہ ور تھے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی، اسلامی تعلیمات سے لگائو اور مشرقی اقدار و روایات کی پاسداری اُن کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ بلا شبہ اُنہوں نے ملک میں نظامِ صلوٰۃ، عشر و زکوٰۃ اور حدود قوانین کے نفاذ کے لئے سنجیدہ کوششیں کیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے دور میں کسان، مزدور، تاجر، صنعت کار، سرکاری ملازمین، بزرگ شہری، سابقہ فوجی اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین سمیت عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ بعد کے ادوار بالخصوص آج کے دور کے مقابلے میں نسبتاً آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ اور قومی نمو میں بہتری کے آثار نمایاں تھے۔ عالمی برادری بالخصوص عالم ِ اسلام میں پاکستان کی ایک عزت اور مقام تھا۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان بہتر ڈپلو میسی پر عمل پیر ا تھا۔بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور بعد میں اُس کے بیٹے راجیو گاندھی کی طرف سے ضیاء الحق سے بے اعتنائی کا رویہ اپنانے کے باوجود مختلف عالمی فورمز پر اُنہیں ہر گام ضیاء الحق کے مقابلے میں خفت کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ پاکستان نے غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کی رُکنیت ہی حاصل نہ کی بلکہ بھارت کی روایتی چوہدراہٹ کو بھی ختم کیا۔ جہادِ افغانستان میں پاکستان کی بھرپور شرکت اور روسی قیادت کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے باوجود ضیاء الحق کا ثابت قدم رہنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود ضیاء الحق شاید ہمارے نام نہاد لبرز اور بائیں بازو کے دانشور طبقات کے معیار پر پورا نہیں اُترتے تھے۔ یہ طبقات جو ضیاء الحق کے دور میں ہر طرح کی مراعات ، نوازشات اور آسائشوں سے بہرہ مند ہوتے رہے آج بھی اُن کو تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں مجھے ایک محفل میں اسی طرح کے ایک لبرل سے ملاقات اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ یہ لبرل جو ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں میرے لیے بہت محترم اور قابلِ قدر ہیں کہ یہ زمانہ طالبعلمی کے وقت سے اپنائی اپنی لبرل سوچ پر قائم ہیں۔ باتوں باتوں میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کا ذکر چل پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ ضیاء الحق کو ایک فوجی حکمران یا آمر نہیں گردانتے ؟ میں نے کہا ایسا ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر آپ نے ان سے جو ایک طرح کی وابستگی اختیار کی ہوئی ہے اسے کیوں ختم نہیں کرتے؟ اُن کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ضیاء الحق کی حکمرانی کی وجہ سے ہمارے ملک کو کئی طرح کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا ان کی وجہ سے آپ ان کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیں گے؟ میں نے انھیں یاد دلایا کہ آپ جو کچھ کہ رہے ہیں اس میں کسی حد تک حقیقت ہو سکتی ہے لیکن آپ ایک بڑی حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ کیا تو ملک کے حالات کیا تھے؟ بھٹو کے خلا ف ملک گیر احتجاجی تحریک چل رہی تھی اور آئے دن اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بھٹو مخالف سیاستدانوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور پورے ملک میں امن و امان کی صور ت اس حد تک بد تر ہو چکی تھی کہ فوج کے لیے اقتدار پر قبضہ جمانے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ میں نے محترم پروفیسر صاحب کو یاد دلایا کہ ضیاء الحق فوجی آمر ضرور تھا لیکن اس نے اپنے نظریاتی مخالفین کو چن چن کر نشانہ نہیں بنایا تھا ۔ میں نے مثال کے طور پر انھیں یاد دلایا کہ ایک محترم پروفیسر اور دانشور جو اس وقت بھی بقیدِحیات ہیں اور جن کو وہ قریب سے جانتے ہیں باوجود اس حقیقت کے کہ وہ بھٹو کے شیدائی تھے اور ضیاء الحق کے کٹڑ نظریاتی مخالفین میں ان کا شمار ہوتا تھا انھیں اپنے شعبے میں ترقی پانے کے ہر طرح کے مواقع حاصل رہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ضیاء الحق میں انسانیت کے جو ہر ہی موجود نہیں تھے بلکہ اس میں خدا خوفی بھی پائی جاتی تھی۔ خیر یہ تذکرہ ایک جملہ معترضہ سہی واپس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
ضیاء الحق کے افغان پالیسی پر آج بھی اُن کو کوسنے والے موجود ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اُنہیں روسیوں کے خلاف افغانیوں کی تحریک مزاحمت جسے جہادِافغانستان کا نام دیا جاتا ہے میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا اور نہ ہی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو اپنے ملک میںپناہ دینی چاہیے تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے کلاشنکوف کلچر کو رواج ملا اور دہشت گردی کا آغاز ہوا۔ معترضین اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ دسمبر 1979کو روسی افواج افغانستان میں دَر آئیں تو یہ آج کا پیوٹن کا روس نہیںتھا۔ یہ برزنیف ، چرنکو اور آندرے پوف کا طاقت اور غرور کے گھمنڈ میں بدمست سوویت یونین تھا جس نے وسط ایشیاء کی وسیع و عریض رقبوں پر پھیلی مسلم ریاستوں پر ہی قبضہ نہیں کر رکھا تھا بلکہ ہنگری اور پولینڈ سمیت مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو بھی تاراج کر رکھا تھا۔ افغانستان میں اگر اُس کی مزاحمت نہ کی جاتی تو وہ افغانستان کو روندنے کے بعد بحیرئہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے اپنے صدیوں پرانے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے پاکستان کی سرحدوں کو بھی پامال کر سکتا تھا۔پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کا بدلہ چُکانا بھی ہم پر واجب تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کے ساتھ سوویت یونین بھی برابر کا شریک تھا۔ پھر یہ حقیقت بھی تھی کہ پاکستان کی حکومت افغانیوں کو بطورِ مہاجر پاکستان میں آنے سے روکتی تب بھی انہوں نے نہیں رُکنا تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اُن سے پٹ جاتے۔ لہٰذا حالات و واقعات ا ور زمینی حقائق کا تقاضا یہی تھا کہ پاکستان افغانیوں کی تحریک ِ مزاحمت جو حقیقتاً چند سال قبل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہو چکی تھی اس میں سرگرمی سے شریک ہوتا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان جہاد کی آڑ میں پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ ضیاء الحق ہی تھے جنھوں نے1987 کے شروع میں پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے بھارت کے دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کا اشارہ دے کر یہ دھمکی نما پیغام دیا کہ بھارت "براس ٹیک” فوجی مشقوں کے نام پر پاکستان کی سرحد پر جمع 2لاکھ فوج کو واپس بُلا لے اور پاکستان کے خلاف کسی جارحانہ کاروائی سے باز آجائے ورنہ بھارت اس تباہی کا شکار ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تبصرے بند ہیں.