کیا علم کتابوں کی بجائے ٹاک شوز میں آگیا ہے؟

34

پہلے کہا جاتا تھا کہ علم کتابوں میں ہے لیکن اب یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ علم ٹاک شوز میں ہے۔ ٹاک شوز کے اینکر پرسنز اور ان کے مہمانوں کی گفتگو سنیں تو یہی ثابت کیا جارہا ہوتا ہے کہ ان کے دلائل علم و دانش سے بھرپور ہیں اور ان کی رائے حرفِ آخر ہے۔ بعض تو سورج کی روشنی کو بھی رات کا اندھیرا ثابت کرکے اپنے آپ کو سقراط جیسی عظمت کا حقدار سمجھتے ہیں۔ اگر حقیقت معلوم کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اینکر پرسنز اور ان کے مہمانوں میں سے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے اپنی تعلیمی ڈگری لینے کے بعد کوئی کتاب تو دور کی بات کبھی قاعدہ کھول کر بھی نہیں دیکھا۔ انہی اینکر پرسنز اور مہمانوں میں سے اکثر ایسے ہیں جنہیں صبح کے اخبارات کی خبریں تک معلوم نہیں ہوتیں۔ تاہم اس تمام خالی پن کے باوجود اکثر اینکر پرسنز اور ان کے مہمان شیکسپیئر کے اُس قول کو خوب نبھاتے ہیں کہ ’’یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہر انسان اپنی اپنی ایکٹنگ کرتا ہے‘‘۔ بہرحال اینکر پرسنز اور مہمان جو واقعی علم و دانش رکھتے ہیں ان میں سے بھی بعض عقل کُل کی رینکنگ سے نیچے اترنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ علم و دانش کا پہلا تقاضا سیکھنا ہوتا ہے اور سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ جہاں یہ عمل رک جائے وہاں علم و دانش رک جاتی ہے مگر کیا کریں ہمارے اکثر اینکر پرسنز اور ان کے اکثر مہمانان گرامی ہر طرح سے سیکھے سکھلائے ہیں۔ صحافت معاشرے میں شعور لانے کا ذریعہ تھی جس سے معاشرے میں بہتر تبدیلیاں رونما ہوتیں اور وہ معاشرہ فلاحی معاشرے کی راہ پر گامزن ہوتا۔ جب سے ہمارے ہاں ٹاک شوز کا مافیا پیدا ہوا ہے اس وقت سے اب تک جائزہ لیں تو عوام کی زیادہ رائے یہی سامنے آتی ہے کہ یہ ٹاک شوز بہتری کی بجائے فساد کا باعث ہیں۔ ان سے سوسائٹی میں مثبت تبدیلی کی بجائے بعض اوقات انتشار برپا ہوا ہے۔ انہی کی وجہ سے سوسائٹی کئی گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ سوسائٹی تو ایک طرف ٹاک شوز نے گھروں کے اندر بھی تقسیم پیدا کردی ہے۔ کیا یہ بات جو اکثر کہی جارہی ہے غلط ہے کہ اگر آپ ایک
ہفتہ ٹاک شوز نہ دیکھیں تو آپ ذہنی سکون میں رہتے ہیں اور اگر ٹاک شوز مسلسل دیکھیں تو آپ کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ بلڈپریشر کے مریض بن جانے کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے؟ سوسائٹی میں انفرادی اور اجتماعی انتشاروبدسکونی کا زیادہ تر باعث اکثر وہ اینکر پرسنز اور مہمانان گرامی ہوتے ہیں جو حالات حاضرہ کی تشریح علم و دانش کی بجائے ایجنڈے کی پرچی کے ذریعے کرتے ہیں۔ پہلے صحافت اور صحافی کو دیر تک یاد رکھا جاتا تھا یعنی ہم اب بھی تاریخ میں نامور صحافیوں کا ذکر شان سے پڑھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اُن صحافیوں نے ایجنڈے کی پرچی کی بجائے اپنی صحافت کے تجزیئے علم و دانش کی کسوٹی پرکئے۔ اُن صحافیوں کی عمر صدیوں پر محیط ہے لیکن آج کل کے اکثر اینکر پرسنز کی شناخت ٹاک شوز کا وقت ختم ہونے تک ہی رہتی ہے اور اگر انہیں ایک ٹاک شو کی ملازمت سے فارغ کردیا جائے اور کسی دوسرے ٹاک شو کا پلیٹ فارم نہ ملے تو لوگ انہیں بھول جاتے ہیں۔ گویا وہ ’’دلہن ایک رات کی‘‘ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی اکثر اینکر پرسنز کو روزانہ ایک گھنٹے تک مائیک اور سکرین پر بٹھا دینے سے معاشرے پر وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کسی اناڑی کے ہاتھ میں ڈرائیونگ سیٹ دے دینے سے ہوتے ہیں۔ ہمارے اینکر پرسنز اور مہمانوں کی گفتگو کا سوفیصد فوکس سیاست ہوتی ہے حالانکہ سوسائٹی میں سیاست کے ساتھ ساتھ اور بھی بے شمار ایسے موضوعات ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن چونکہ ہمارے اکثر اینکر پرسنز اور ان کے مہمانوں کی روزی روٹی ایجنڈے کی پرچی سے جڑی ہوتی ہے اس لیے وہ دوسرے موضوعات کی بجائے صرف سیاست پرہی گفتگو کرتے ہیں۔ یہ افراد سیاسی حالات کی تشریح اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت کرکے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ افراد اپنی مخصوص تشریح کو لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونس کر انہیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جو اپنی نوعیت کا ایک الیکٹرانک میڈیا کرائم کہلا سکتا ہے۔ مثلاً موجودہ سیاسی صورتحال سے مثال لیتے ہیں۔ جو اینکر پرسنز اور مہمان ن لیگ سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو مظلوم ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھتے جبکہ دوسری طرف جو اینکر پرسنز اور ان کے مہمان ن لیگ کے مخالف ہیں وہ نواز شریف کے معاملات کو فرینڈلی فائر قرار دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف عدلیہ اور اداروں کو بدنام کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے اینکر پرسنز اور پیپلز پارٹی کی وکالت کرنے والے مہمان پارٹی کی قیادت کو حقیقی عوام دوست اور مظلومیت کا نشان قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ عدلیہ کے فیصلوں پربھی بات کرنے سے نہیں چوکتے۔ پیپلز پارٹی کے حمایتی اینکر پرسنز اور مہمانوں کے اس رویئے کو پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے اینکر پرسنز اور مہمان آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ اُن کے بقول عدلیہ پر تنقید کرنا پیپلز پارٹی کا پرانا وطیرہ ہے۔ پی ٹی آئی بھی اپنے حوالے سے عدالتی فیصلوں کا احترام کس حد تک کرتی ہے اُس کا اندازہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی تقریروں، ان کے بیانات اور ان کے عملی اقدامات سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جس میں الیکشن کمیشن کے خلاف پی ٹی آئی کے بیانات ایک مثال ہیں۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح سب چھوٹی، قوم پرست یا مذہبی جماعتیں بھی صرف اُس عدالتی فیصلے کو اچھا سمجھتی ہیں جو اُن کے پراپیگنڈے کے مطابق ہو اور اگر فیصلہ اُن کے ایجنڈے سے مختلف ہوتو وہ اُس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی، اے این پی، جے یو آئی ایف اور ایم کیو ایم وغیرہ بھی اپنے رہنمائوں کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں پر ہرممکن تنقید کرتی ہیں۔ گویا پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا یہ فیصلہ ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو۔ اسی طرح ناظرین ہر اینکر پرسن اور ہر ٹاک شو کے بارے میں پہلے ہی بتاسکتے ہیں کہ وہ فلاں موضوع پر سوالات کی صورت میں فلاں رائے دیں گے۔ اگر ہمارے اینکر پرسنز اور مہمان ایجنڈے کی پرچی کی بجائے تاریخی علم و دانش کو سامنے رکھ کر پروگرام مرتب کریں اور سوا ل و جواب دیں تو یہی ٹاک شوز ہماری سوسائٹی کے بہترین استاد بن سکتے ہیں لیکن اس طرح اکثر کی روزی روٹی کم ہو جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.