سوات میں طالبان کی واپسی

50

کیا کوئی پاکستانی 2007 میں ریاست کے اندر ’’ریاست‘‘ کو بھول گیا ہے؟ کیا ہماری یادداشت اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ ہمیں چند سال قبل کے شورش زدہ واقعات بھی یاد نہیں رہتے۔ کیا ہم یہ بات بھول چکے ہیں کہ مسلح جتھوں نے اْنہی دنوں اپنی طرز کی شریعت کا نفاذ کرکے سوات میں عام آدمی کا جینا حرام کردیا تھا۔ اس سے قبل سکولوں ، مساجد، اور دیگر عبادت گاہوں کو بموں سے اڑا کر خوف وہراس کی فضا پیدا کی جارہی تھی۔ صورتحال اتنی زیادہ خراب وخستہ ہو چکی تھی کہ بادی النظر میں یہ مسلح جتھے اسلام آباد پر بھی قبضہ کر سکتے تھے۔ یقین مانیں وہ مناظر آج بھی ہمیں یا د ہیں جب ضلع سوات میں اپنی ’’حکمرانی‘‘ کے دوران طالبان نے خواتین کو گھروں میں بند کردیا تھا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی تھی، اور بعض خواتین کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے۔ بین الاقومی شہرت یافتہ ملالہ یوسف زئی کا واقعہ انہی دنوں پیش آیا تھا۔ پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہو رہا تھا، ہمیں آج بھی وہ سکول کے بچے یاد ہیں، جن راستے میں ہی مار دیا جاتا تھا، ہمیں لڑکیوں کے جلتے سکول بھی نہیں بھولے، کہ گن گن کر 230سے زائد گرلز سکولوں کو آگ لگا دی گئی تھی، پھر مالم جبہ میں پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلز کو آگ لگانا کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟ اور پھر یہی نہیں سوات سے نکل کر خود کش حملہ آور روزانہ کی بنیاد پر پورے ملک پر حملے کر رہے تھے۔ ان حالات کو خراب کرنے میں ملا فضل اللہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، اس گروپ نے جتنے ظلم کیے کیا اْنہیں بھلایا جا سکتا ہے؟ زمرد کی کانیں تک اْن کے پاس تھیں، جگہ جگہ اپنی چھاؤنیاں قائم کرکے عوام کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ پھر پاک فوج نے آپریشن راہ حق کا آغاز کیا، کھربوں روپے کے ساتھ ساتھ ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ان سے جان چھڑائی گئی اور پھر کہیں جا کر ہمیں سوات واپس ملا تھا۔
لیکن اب ایک بار پھر چند روز سے ان خبروں نے خاصا مایوس کر رکھا ہے کہ جنت نظیر وادی سوات میں طالبان دوبارہ منظم ہو کر جہاد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا کہ سوات کا کوئی بارڈر افغانستان کے ساتھ منسلک نہیں ہے تو پھر سیکڑوں مسلح لوگ کیسے سوات پہنچ گئے؟ ویسے تو اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی وضاحت بھی آ چکی ہے کہ سوات میں طالبان کا وجود نہیں۔ مگر وہاں کے
رہائشیوں کا احتجاج، مالم جبہ کا خالی ہوجانا، ٹور ازم آپریٹرز کی بکنگ کینسل کردینا اور پولیس کا طالبان کی سوات اور مٹہ میں موجودگی کا اعتراف کرنا ، وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس حوالے سے اعتراف کرنا اور پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو جس میں ڈی ایس پی سرکل پیر سید اور 2پاک آرمی سے تعلق رکھنے والے آفیسرز جنہیں مسلح افراد نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔ جیسے ثبوتوں سے تو یہ بات اتنی آسان نہیں لگتی جتنی بتائی جا رہی ہے۔ لہٰذایہ تمام واقعات ان شکوک و شبہات میں اضافہ کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی اور ریاست کے درمیان مذاکرات کے نام پر کہیں نہ کہیں کھچڑی پک رہی ہے۔ اور سنا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو اکا دکا ضلع تک محدود کردیا جائے، خدانخواستہ اگر ایسا ہوا کہ طالبان کو ایک یا دو اضلاع دے دیے جائیں ، تو پھر ہمارے سکیورٹی ادارے یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ پھر ایک دو ضلع پر نہیں رکیں گے اور یہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیوںکہ جب 2007ء میں سوات مکمل ان کے قبضے میں آیا تھا تو اْس وقت بھی یہ لوگ اسلام آباد تک آگئے تھے۔
حقیقت میں ہمیں اْن عناصر کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ جو پاکستان کو پرامن نہیں دیکھنا چاہتاکہ جب بھی پاکستان تھوڑا بہت خوشحال ہونا شروع ہوتا ہے تو اس قسم کی بدگمانیاں پیدا کرنا شروع کردی جاتی ہیں۔ مغرب پہلے ہی ہم پر الزام لگاتا ہے کہ افغانستان میں ایک سال پہلے جو کچھ ہوا اْس میں پاکستان کا پورا ہاتھ تھا، اور ہمارے خفیہ ادارے کے لوگوں کی تصاویر بھی بین الاقوامی سطح پر نشر کی گئیں کہ جو افغان شورش کے فوری بعد کابل میں چائے نوشی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لہٰذااگر یہ افغان طالبان کی سپورٹ سے سب کچھ ہو رہا ہے تو یہ یقینا اْس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیوں کہ ہم کسی اور آگ سے نہیں بلکہ سورج کے شعلوں سے دھکتی ہوئی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ البتہ افغان طالبان توکہہ چکے کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی یقین دہائی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین سے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔لیکن کیسے یقین کیا جاسکتا ہے اور پھر افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ان سے جتنے بھی معاہدے کیے گئے وہ پورے نہ ہوسکے۔ 2004 میں سب سے پہلے مذاکرات نیک محمد گروپ سے کئے لیکن چند مہینوں بعد ہی معاہدہ ختم ہوگیا۔2006 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود سے معاہدہ بھی ناکام رہا، 2007میں مولانا صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ جو اس وقت ہر دم پاکستان مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اسی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کے بعد سوات کے شدت پسند متحرک ہوئے اور مولانا فضل اللہ نے سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا اعلان کر دیا،15جولائی 2007کوسوات میں پہلا خود کش حملہ ہوا جس میں 13ایف سی اہلکار اور 6شہری شہید ہوئے اسی سال فضل اللہ نے شرعی عدالتیں قائم کر دیں،نومبر میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر فوج نے سوات کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لئے آپریشن راہ نجات کے تحت فوج داخل کر دی اپریل2008 میں امام ڈھیرئی جو کہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کا ہیڈ کوارٹر تھا پر فوج نے قبضہ کر لیا بعد میں اے این پی نے شدت پسندوں کے ساتھ 21نکاتی امن معاہدہ کیا جو کامیاب نہ ہوا۔ دسمبر میں ایک بار پھر شدت پسندوں نے سوات کے 75فیصد حصہ پر قبضہ کر لیا جس پر فوج نے ’’راہ حق‘‘ 2آپریشن کا آغاز کیا لیکن سرحدی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے وہ زیادہ کامیاب نہ ہوا اور فرور ی 2009میںنظام عدل پر آمادگی ظاہر کی اور یوں صوبائی حکومت نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ دستخط کیے،پھر 2014 میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔
لہٰذاخدارا! اس ملک پر رحم کھائیے، اور ایسا نہ کریں!اور ٹی ٹی پی کو ذرا سی بھی چھوٹ دینے کے بارے میں نہ سوچیں، کیوں کہ یہاں چھوٹ دینے کا مطلب سب کچھ دینا ہوتا ہے بالکل اْسی طرح جس طرح کالعدم لشکر طیبہ کو تھوڑی سی چھوٹ دی تھی تو انہوں نے لاہور جیسے شہر میں اپنی عدالتیں لگانا شروع کر دی تھیں، اْن سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا تھا، اور پھر جیسے ہی ہم تحریک لبیک کو تھوڑا سا موقع فراہم کرتے ہیں تووہ پورے ملک کا حشر نشر کر دیتا ہے۔ بالکل یہ بھی ویسا ہی کریں گے، اس لیے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ورنہ پاکستان مزید ناکام ہوگا اور ہمارے دشمن ہم پر ہنسیں گے!

تبصرے بند ہیں.