پاکستان کے 75 سال

107

گزشتہ روز پاکستان کا 75 واں یوم آزادی منایا گیا جس کا مطلب صرف اتنا تھا کہ 14 اگست 1947 کو پاکستان دو سامراجوں سے آزاد ہوا تھا ایک برطانیہ اور دوسرا ہندو سامراج سے، جب کہ ہم پر حکمران صرف ایک تھا اور وہ تھا برطانیہ۔ وسیع و عریض ہندوستان کے کچھ حصے میں اسلام کے نام پر پاکستان وجود میں آیا جبکہ ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی مسلمان بہت بڑی تعداد میں موجود تھے اور جب قیام پاکستان کے لیے تحریک چل رہی تھی تو وہ مسلمان شاید ان مسلمانوں سے زیادہ خوش تھے۔ لیکن جو پاکستان میں نہیں تھے ہندو سامراج کے قبضے میں تھے ان کے تحفظ کے لیے ہم ان سے وعدے کرتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی طاقت کے ذریعے ان کو تحفظ دیں گے، وہ بے فکر رہیں۔ جب مشرقی پاکستان کے پاکستانیوں نے اپنے دفاع کی بات کی جو انتہائی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا تو اس وقت ان کو بھی یہی جواب دیا گیا کہ اگر بھارت نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی کی تو مغربی پاکستان سے بھارت کا خم ٹھونک دیں گے، وہ بے فکر رہیں۔ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں مگر وہ دن جب ایک غلام قوم کے لیے آزادی کا سورج طلوع ہو اور غلامی کے اندھیرے چھٹ جائیں وہ اس قوم کی زندگی کا اہم ترین دن ہوتا ہے۔ مسلمانان برصغیر نے آگ کا دریا عبور کر کے بالآخر 14 اگست کو آزادی حاصل کر ہی لی لہٰذا 14 اگست کو قومی تاریخ کا اہم ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ یہ لیلۃ القدر کی رات تھی اس با برکت رات میں میرے پیارے خدا نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے نوازا۔ اسی دن قائد اعظم محمد علی جناح کی دن رات کی جانے والی محنت رنگ لے آئی۔ یوم آزادی ہمیں جدوجہد آزادی اور آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے اور ہماری آنکھوں میں تاریخ کا ایک پورا دور زندہ ہو جاتا ہے۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی قوت کا شیرازہ بکھر گیا اور برصغیر پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور اس لیے انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے تاکہ مسلمان کمزور ہو جائیں ان کی جاگیریں ضبط کر لیں، فارسی زبان ختم کر دی گئی، ان کی تہذیب، ثقافت اور جداگانہ مذہبی اور قومی تشخص کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، معاشی ترقی کے تمام راستے بند کر کے ان کو سیاست سے بھی دور کر دیا گیا تاکہ وہ ہندوستان پر دوبارہ حکمرانی کا خواب نہ دیکھیں۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے گٹھ جوڑ کے باعث وہ علم و فنون زندگی کے ہر میدان میں دوسری اقوام سے پیچھے رہ گئے اور ان کی عزت نفس وقار ختم ہو گیا۔
آزادی انسان میں اعلیٰ اوصاف پیدا کرتی ہے غیرت اور تسخیر جہاں اس کے کمالات ہیں غلام شخص کی عقل اور دانش پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، اس کی فطرت میں پستی ہوتی ہے۔ غلام کسی طرح بھی آزاد کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم پاکستان کے پہلے 10 سالہ سفر کو دیکھیں تو ایک وقت ایسا تھا جب پاکستان بہت سے شعبہ جات میں کامیاب تھا پوری دنیا میں پاکستان کا ایک نام تھا مگر آج کے دور کے پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو بہت افسوس ہوتا ہے وہ اس لیے کہ پوری دنیا میں پاکستان کا ایک نام ہوتا تھا ہمارے ملک کے سیاست دانوں نے کرسی کی انا کو اتنا سر پر چڑھا لیا کہ ملک کے بارے میں کسی نے سوچا ہی نہیں، اقتدار کی جنگ میں اس ملک کو خسارے کے بھینٹ چڑھا دیا۔
ہر دور اقتدار میں چور ڈاکو اور ہر عام انتخابات کے بعد دھاندلی، خزانے خالی کی باتیں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں اور دنیا کہاں پہنچ گئی۔ پچھلے چند سال کو ہی دیکھ لیں کیا ہوا، الیکشن کا رونا روتے ہوئے ملک کو خسارے میں ڈال دیا گیا۔ پچھلے چند سال میں اپنے ہمسایہ ممالک بھارت کی ہی مثال لے لیں جسے ہم ہر فورم پر شکست دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں وہ آئی ٹی میں کہاں پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے ترقی کی ہے ڈیم بھارت میں بن گئے۔ بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں ترقی کر گیا اور میرا پیارا وطن اس کے ساتھ اسی کے سیاست دان اپنی سیاسی جنگ میں کہاں سے کہاں لے گئے نہ ڈیم بن سکے نہ ہی اپنی کرنسی کو آگے لے کے جا سکے اور نہ ہی ملک کے حالات کو بہتر کر سکے اور چور ڈاکو دھاندلی کے نعرے نے میرے ملک کا وہ حال کیا کہ پوری دنیا آج پاکستانیوں کو ان کی ملکی حالات پر بات کر کے نیچا دکھاتی ہے۔ پاکستانیوں کو ویزا دینے میں کتنے ناک بھوں چڑھاتے ہیں یہ میرے ملک کے سیاستدانوں کی سوچ ہے پاکستان کی پچہترویں سالگرہ پر میں نے دیکھا سیاستدانوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ بھرے پڑے تھے مبارکباد سے، کوئی ترقی کا تحفہ نہیں دیا گیا عوام کو بھارت 15 اگست کو جو ان کا یوم آزادی ہے اس دن الیکٹرک کار متعارف کرا رہا ہے اپنی عوام کو تحفہ دے کر۔
تو میرے ملک کے معزز حکمرانو، جناب اس مبارک باد کا کوئی فائدہ نہیں عوام کو۔ ملک کو آپ لوگوں کی خدمت چاہیے، آپ اپنے اقتدار کی جنگ بند کر کے ایک ہو کر کام کریں تو پاکستان بہت اچھے مقام پر جا سکتا ہے۔ پاکستان کی حالت جو آج ہے، یہ تو ہر پاکستانی پر بیت رہی ہے۔ ہماری اشرافیہ اپنے اعمال خبیثہ کے نتائج دیکھ کر اب عوام کو نئے چکر دے رہی ہے جس میں وہ عوام اور اسٹیبلشمنٹ کو آمنے سامنے کر رہی ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ اس حد تک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکی ہے کہ آپ دیکھیں وہ اس آڑ میں پاکستان کی آزادی کا جشن کیسے ٹویٹر سوشل میڈیا پر مناتے نظر آتے ہیں ان کی تقریریں سنیں اور نئے جھوٹ اور فریب تراش رہے ہیں۔ اصلاحی تاریخ کے اس سب سے بڑے فریب پر استغفار اور بس آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ اللہ پاک اپنا خاص کرم کرے اس ملک اور اس میں بسنے والے شہریوں پر۔ آمین

تبصرے بند ہیں.