وزیر اعلیٰ پنجاب کو درپیش چیلنجز

33

چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنے ہوئے دوہفتہ سے زیادہ کا عرصہ ہونے کو آیا ہے،اس دوران انہیں مرکز میں وفاقی حکومت اور پنجاب میں اپوزیشن کی سیاسی چالبازیوں کے ساتھ ڈینگی ، کورونا کی افتاد اور طوفانی بارشوں سے سیلابی صورتحال کا بھی سامنا ہے،تاہم وہ اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہیں ، پنجاب کی سیاست کے نشیب و فراز کیساتھ اس کے اسرارو رموز سے بھی آگاہ ہیں،چیئرمین ضلع کونسل سے ڈپٹی وزیراعظم کے عہدہ تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ حزب اقتدار اور اختلاف دونوں شعبوں میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں،رواداری کی سیاست کرتے ہیں اور اپنے منصوبوں پر بیورو کریسی کی مدد سے خاموشی سے کام کرتے رہتے ہیں،اب بھی ان کے پاس بیوروکریسی کے اچھے لوگ اور مختصر سہی مگر ایک تجربہ کار کابینہ ہے تو ضروری ہے ان پر اعتماد کر کے معاملات کو آگے بڑھایا جائے کہ ان کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے۔
وہ ایک بیوروکریٹ فرینڈلی وزیر اعلیٰ ہیں ، با اعتماد تجربہ کار افسروں کی ٹیم تشکیل دیں ،بیوروکریسی ریاست کی ملازم ہے جس کو بھی عوام حکومت کا مینڈیٹ دیں گے ،وہ ریاست کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فرائض انجام دیں گے،کسی حکمران کیساتھ گہری وابستگی کسی افسر کی لیاقت،دیانت کا ثبوت نہیں اپنے حلف کے مطابق فرائض انجام دینا آئینی اور اخلاقی تقاضا ہے ،وفاق اور صوبے میں کبھی دیانت دار،فرض شناس،آئین کا احترام کرنے والے، تجربہ کار افسروں کا کال نہیں رہا،اس وقت بھی نابغہ روزگار اچھے افسر موجود ہیں جوہری کی آ نکھ کی ضرورت ہے،اور چودھری صاحب اس حوالے سے معروف ہیں ، ضروری ہے کہ وہ فی الفور با اعتماد افسروں کی ایک ٹیم تیار کریں انہیں اختیار کیساتھ اعتماد دیں اور صوبہ کے عوام کے مسائل میں کمی لا کر انہیں ریلیف دینے کے کام کا آغاز کریں۔
عشرہ محرم میں امن و امان کے لئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم نے دن رات ایک کئے رکھا ، اب انہیں اپنے صاحبزادے نوجوان سیاستدان مونس الٰہی اور گرم و سرد حالات کے ساتھی پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کا ساتھ بھی حاصل ہے ،مونس الہٰی اب ایک منجھے ہوئے سیاستدان بن چکے ہیں وہ عمران خان ،پی ٹی آئی اور وزیر اعلیٰ کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں تو محمد خان بھٹی انتظامی معاملات اور رابطوں کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ،محمد خان بھٹی تھوڑے دنوں کے لئے چھٹی پہ جانا چاہتے تھے مگر ،،اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا،، وزیر اعلیٰ انہیں ایک دن بھی ایوان وزیر اعلیٰ سے دور نہیں دیکھنا چاہتے۔
25مئی کو ملک اور صوبہ میں جو احتجاج ہوا ،اس کے خلاف حکومت اور انتظامیہ نے برا کھیل کھیلا وہ ایک سیاسی مگر المناک واقعہ تھا،اس میں یقینی طور پر بے اعتدالی بھی ہوئی ،اس واقعہ کی تحقیقات بھی ضروری ہیں مگر اس کی آڑ میں اچھے افسروں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا بھی انصاف نہیں ہو گا،آج چودھری پرویز الٰہی جہاں ہیں کل کوئی اور تھا جیسے آج بیوروکریسی ان کے حکم کی پابند ہے گزرے کل کسی اور کے حکم کی تابع تھی۔
وفاقی سروس کے علی مرتضیٰ ایک اچھے ،محنتی اور اپ رائٹ سینئر افسر ہیں وہ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے مختصر دور میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم تھے،وہ اپنی مرضی سے اس عہدہ پر تعینات ہوئے نہ ان کے کہنے پر احتجاج کرنے والوں پر تشدد ہواوہ پالیسی اور کتاب کے مطابق چلنے والے افسر ہیں ،ان کی بار بار تبدیلی اورپھر انہیں ایس اینڈ جی اے ڈی میں رپورٹ کرانا اچھا نہیں سمجھا جا رہا ،پر تشدد واقعات میں اکثر پولیس افسران اور چند سول افسران کا رویہ قابل تعریف نہ تھا ، ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے مگر جو پولیس اور سول افسران ایسے واقعات کے وقت پنجاب میں تعینات تھے وہ تو پہلے ہی پنجاب سے وفاق چلے گئے۔اب کچھ معاملات پر چیف سیکرٹری کامران علی افضل بھی پنجاب سے خود ہی جانا چاہتے ہیں تو یہ افسروں میں تشویش کا باعث ہے دوسری طرف وفاق بھی افسرن کی مزید خدمات پنجاب کو دینے کے معاملے میں آمادہ نظر نہیں آ رہا یہ بھی کوئی اچھا اقدام نہیں ، اسی وجہ سے پنجاب کو چیف سیکرٹری لگانے کے لئے افسر نہیں مل رہے اور چیئرمین پی اینڈ ڈی عبداللہ سنبل کو چیف سیکرٹری کا اضافی چارج دینے کا سوچا جا رہا ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے پنجاب حکومت صوبائی افسروں پر اپنا اعتماد بڑھا رہی ہے ،جو قابل تعریف مگر ان میں سے ڈی جی ، ایل ڈی اے لگائے جانے والے افسر جونیئر بھی ہیں اور ان پر انگلیاں بھی اٹھ رہی ہیں کہ ان کو کسی ٹاسک پہ یہ عہدہ دیا گیا ہے۔ایک دوسرے صوبائی افسر مبشر حسین کو سیکرٹری بلدیات لگایا گیا ہے وہ ایک اچھے افسر ہیں مگر وہاں سے تبدیل کئے جانے والے افسر عمران سکندر بلوچ کو کسی بڑے محکمے میں لگانا چاہئے تھا وہ کام کرنے والے محنتی افسر ہیں ،اسد االلہ فیض کو سیکرٹری مائینز لگایا گیا ہے وہ بھی سینئر اور محنتی افسر ہیں انہیں ایک عرصہ سے رولنگ سٹون بنا دیا گیا ہے۔ایسے کاموں سے گورننس متاثر ہوتی ہے اور صوبے کا نقصان الگ ہوتا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی پہلی بار وزیراعلیٰ کے عہدے پر متمکن نہیں ہوئے کامل پانچ سال2003 سے 2008تک وہ اس حیثیت میں فرائض انجام دے چکے ہیں،اگر چہ وہ عمران خان کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے مگر ان کی اپنی ایک سیاسی جماعت ہے،قریب ڈیڑھ سال بعد آئندہ عام انتخابات کی تلواربھی لٹک رہی ہے،الیکشن قبل از وقت بھی ہو سکتے ہیں اس مختصر وقت میں باتیں کرنے دعوے کرنے،تقاریر کرنے یا بیانات جاری کرنے سے کام نہیں بنے گا،اب تو کچھ کر کے دکھانا ہوگا،عملی کام ایسا جو دکھائی بھی دے،سیاسی طور پر ان کو اپنی جماعت کو مستحکم کرنے کے ساتھ پی ٹی آئی کو بھی سہارا دینا ہو گا، جبکہ وفاقی حکومت سے بھی تعاون کی امید نہ ہو صرف اس وقت ممکن ہے جب پنجاب حکومت کی ٹیم مضبوط،مستحکم،با اعتماد،تجربہ کار،دیانت دار ہو،وزراء کی ٹیم بھی یکسو ہو، اِس وقت پنجاب کا وزیراعلیٰ مسلم لیگ (ق) سے ہے البتہ پی ٹی آئی والے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اْن کی ہے، جس کے باعث سب کو ساتھ لے کر چلنے اور ایک ٹیم بن کر کام کرنے کی ہے۔
پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کو زیادہ چیلنجز کا سامنا نہیں ہے، صوبے میں جو بھی مسائل ہیں وہ وفاق کی سطح کے ہیں جہاں حالات ٹھیک نہیں چل رہے، پنجاب اور اسلام آباد میں دو متضاد الخیال سیاسی جماعتوں کی حکومت سے مسائل بھی ہونگے لیکن اگر صوبائی ٹیم مضبوط ہوتو مرکز کو بھی درمیانی راہ اختیار کرنا پڑے گی،پنجاب دیگر صوبوں کی نسبت قدرے پرامن ہے، جہاں فی الوقت کوئی معاشی مسئلہ ہے نہ امن و امان کی خراب صورتِ حال، یوں معلوم ہوتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو سیاسی طور پر مسائل کا سامنا نہیں ہوگا، وہ پہلے بھی وزیراعلیٰ رہے ہیں ان کے بیورکریسی اور ارکان اسمبلی سے تعلقات بھی اچھے ہیں اس لئے ایک بار پھر بہتر کارکردگی دکھائیںگے۔

تبصرے بند ہیں.