سیاسی شخصیت پرستی یا نظریاتی سیاست

17

ریسٹورنٹ میں جائیں تو کھانوں کی فہرست میں مٹن بار بی کیو کے کباب اور تیتر بٹیر جیسے پر تکلف لوازمات کے باوجود ماڑے بندے کے Menu میں دال سی فٹ ہوتی ہے۔ یہی حال تجزیہ کاری کا ہے۔ ہمارے اردگرد بڑی اچھی اچھی خبریں ہیں اس ہفتے کی جیسا کہ ارشد ندیم نے جیولن تھرو میں پاکستان کیلئے گو لڈ میڈل جیتا ہے اسی طرح لاہور کے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (PKLT) میں اس ہفتے اپنی نوعیت کا ایک منفرد Swap Kidneyٹرانسپلانٹ کیا گیا جو کامیاب رہا۔ ایسے ہی ایک اور خبر ہے کہ ہمارے امریکہ پلٹ دوست ڈاکٹر اختر وڑائچ فیصل آباد میں ایک جدید ترین ٹراما سینٹر کا آغاز کر رہے ہیں جس کیلئے محض کمیونٹی سروس کی خاطر انہوں نے اپنی امریکی نوکری کو خیر باد کہہ دیا ہے ان خو شگوار موضوعات پر نہایت حوصلہ افزاء کالم لکھے جا سکتے ہیں لیکن ہماری قسمت میں لے دے کر سیاست اور حالات حاضرہ ہی بچتے ہیں جن پر لکھنا ہوتا ہے یہ وہی ماڑے بندے کے ہوٹل پر دال کا آرڈر دینے والی بات ہے جس میں چوائس کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
ہماری قومی سیاست بڑی فتنہ گرہے یہاں ہاتھی گزر جاتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا مگر بعض اوقات کرپشن کے ہاتھی کے گزر جانے کے بعد آخر میں اس کی دم پکڑلی جاتی ہے۔ نواز شریف پر کرپشن کے بڑے سنگین الزامات تھے مگر انہیں سزا ایک ایسے کیس میں ہوئی جوہاتھی کی دم نہیں بلکہ کسی چیونٹی کی دم کے برابر تھا کہ آپ نے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کیوں نہیں لی۔ لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جارہی ہے۔ فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا صحیح سلامت بچ نکلنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا کیس کے سارے میرٹ ساری شہادتیں ساری دستاویزات ان کے خلاف ہیں ان حالات میں نواز شریف کے بارے میں کئے گئے فیصلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عمران خان کیلئے ان الزامات سے عدالتی بریت حاصل کرنا بظاہر ممکن نہیں ہے یہاں تک بھی سوچا جا رہا ہے کہ عمران خان کی نا اہلی کے بعد پاکستانی سیاست کی دو ڑ سے باہر ہوں گے ۔ جس کے بعد مفاہمت کا عمل شروع ہوگا اور سیاست اور عدالت کے سامنے یہ سوال لکھا جائے گا کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں کا جرم ایک جیسا ہے نا ایسی گنجائش تلاش کی جائے گی کہ ان کی نا اہلیت کو اہلیت میں بدل دیا جائے ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس میں نواز شریف کے سیاسی فوا ئد عمران خان سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
فارن فنڈ نگ کی بات چلی ہے تو پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر جو اس کیس کے مدعی ہیں ان کا ذکر کرناضروری ہے یہ بندہ 2014ء یعنی گزشتہ 8 سال سے عدالتوں اور وکالتوں کے چکر میں رسوا ہوتا رہا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ فارن فنڈنگ کیس در اصل عمران خان کی انا پرستی کی وجہ
سے یہاں تک پہنچا اکبر ایس بابر تو پی ٹی آئی کا اپنا آدمی اور عمران خان کا دست راست تھا۔ 2011ء کا سال پی ٹی ٓئی کے لیے دو وجہ سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے پہلا یہ کہ اکتوبر2011 ء میں یہ جماعت مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کے بعد قومی جماعت بن کر ابھری ۔ دوسری بات ہے کہ 2011ء میں اکبر ایس بابر نے پارٹی کے اندر انویسٹرز کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور ان کی کرپشن پر عمران خان کو باور کرا یا اور غیر قانونی فنڈنگ کی نشاندہی کی اس سلسلے میں اکبر ایس بابر کے پاس عمران خان کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت اور ای میلز کا ریکارڈ موجود ہے جس میں عمران خان نے اکبر ایس بابر کو ان معاملات کو اصل سیاسی انداز میں سمجھنے کا مشورہ دیا مگر پھر جلد ہی اْسے پارٹی سے نکال دیا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ معاملات پارٹی کے اندر ہی حل ہو جاتے مگر 2013ء میں پارٹی سے نکالے جانے کے بعد 2014ء میں اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔عمران خان ضد میں نہ آتے تو شاید اپنے سیاسی کیر یئر کے اتنے بڑے بحران سے بچ جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پارٹی کے منحرف رکن نے ان کا کیا کر لینا ہے یہی سوچ انہیں مار گئی ایک منحرف رکن نے وہ کر دکھایا جو ان کے بڑے بڑے سیاسی مخالفین نہ کر سکے۔
فارن فنڈنگ فیصلے کے رد عمل میں عمران خان نے قومی اسمبلی کی 9 سیٹوں پر بطور امیدوار کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کی پارٹی نے قومی اسمبلی سے بطور احتجاج اجتماعی استعفے دیئے تھے۔ یہ ایک Pressure Tactic تھا کہ حکومت کو نئے انتخابات کے اعلان پر مجبور کیا جائے مگر حکومت یہ پریشر برداشت کر گئی بلکہ حکومت نے اپنی مقبولیت داؤ پر لگا دی مگر اپوزیشن کی بات نہیں مانی۔پی ٹی آئی کے لیے اخلاقی جمہوری اور احتجاجی راستہ یہ تھا کہ وہ اس ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کرتے اور یہاں الیکشن نہ ہونے دیتے یا ٹرن آؤٹ اتنا low ہوتا کہ حکومتی ساکھ زیرو ہو جاتی مگر تحریک انصاف نے انوکھا راستہ نکالا اور 9کی 9 سیٹوں پر پارٹی چیئرمین کو امیدوار نامزد کر دیا۔
پنجاب کے ضمنی انتخاب کے نتائج کی وجہ سے پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ یہ سیٹیں جیت کر ایک تو عمران خان کی نا اہلی کے آگے دیوار کھڑی کی جائے گی۔ دوسرے پارٹی کی مقبولیت ان کی سیاسی اور نادیدہ مخالفین کو کی آنکھیں کھول دے گی جس سے ہو سکتا ہے پرانی راہیں پھر ہموار ہوجائیں مگر ضروری نہیں کہ جو وہ سمجھتے ہیں نتائج بھی ویسے ہی ہوں۔ ان 9 سیٹوں میں تین KPK میں ہیں۔ 3 پنجاب میں ہیں اور 3 کراچی میں ہیں۔ پی ٹی آئی سیاست کا منفی پہلو یہ ہے کہ مقامی قیادت پر اعتماد نہیں کیا جا رہا یہ ایک طرح کا trust deficit ہے جس سے پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عمران خان پارٹی کیلئے قطعی طور پر ناگزیر ہے جہاں یہ نہیں ہوں گے وہاں سورج طلوع نہیں ہوگا بلکہ رات ہی رہے گی۔ یہ جمہوریت کی نفی ہے۔ ایک امیدوار کا 9 سیٹوں پر کھڑے ہونا ویسے ہی آئین اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ہو سکتا ہے میرے خیال م یں یہ 1973ء کے آئین کی ایک over sight ہے جس کا فائدہ اٹھایا جارہا ہے مثلاً 9 حلقوں سے انتخابات کرانے کی صورت میں ایک امیدوار کے مجموعی انتخابی اخراجات کا سوال غیر معمولی صورت اختیار کر جائے گا۔ ہاں البتہ اگر عمران خان ساری سیٹیں جیت جاتے ہیں تو اگلے مرحلے میں ان میں سے 8 ان کو چھوڑنا پڑیں گی جہاں دوبارہ انتخاب درکار ہوگا۔ البتہ 9 کی 9 سیٹیں جیتنے کی صورت میں پی ٹی آئی ملک میں صدارتی طرز حکومت کا مطالبہ کر سکتی ہے جس میں صدر کا انتخاب پورے ملک کے عوام کے براہ راست ووٹ سے ہو اور وزیراعظم کے اختیارات صدر کے تابع ہوں۔
اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے ان 9 سیٹوں میں کراچی کی 3 سیٹیں عمران خان کے دانت کھٹے کر دیں گی کیونکہ وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور کراچی کے عوام پی ٹی آئی کے تجربے پر ابھی تک نادم ہیں پنجاب میں بھی عمران خان کو جیتنے کیلئے بہت ٹف ٹائم ملے گا البتہ KPK کی 3 سیٹوں پر شاید یہ اپنا قبضہ برقرار رکھیں گے۔ حکمران  جماعت نے بھی سمجھ کر اپنی مرضی کے حلقوں سے استعفے منظور کیے ہوئے ہیں۔ اگر عمران خان 5 سے کم سیٹیں جیت پائے تو اس سے قومی سطح پر بڑھتی ہوئی شخصیت پرستی کی حوصلہ شکنی ہوگی جو ایک سماجی تقاضہ ہے۔ کوئی ناگزیر نہیں ہوتا۔ ہمارے قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے ۔

تبصرے بند ہیں.