ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس اور آرٹیکل 17

30

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس بارے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی نے34غیر ملکیوں، 351کاروباری اداروں اورکمپنیوں سے فنڈز لیے، اور13 نامعلوم اکاؤنٹس بارے بتانے میں ناکام رہی۔جبکہ عمران خان نے فارم ون جمع میں غلط بیانی سے کام لیااورپارٹی اکاؤنٹس بارے بیان حلفی جھوٹا ہے۔الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیتے ہوئے فیصلہ کی کاپی وفاقی حکومت کو بھجوانے کی ہدایت کردی۔ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی دائر درخواست میں الزام عائد کیا گیاتھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔ تحریک انصاف نے ان الزامات کی ہمیشہ اور ہر فورم پر تردید کی ہے اور پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کو ملنے والے تمام تر فنڈز پاکستان میں اس حوالے سے رائج قوانین کے تحت حاصل کیے گئے۔ تاہم رواں برس تحریک انصاف کی طرف سے جو بیان الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل فنڈز میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اْس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کیلئے حاصل کی جاتی ہیں۔اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے مخالف سیاسی جماعتوں نے یہ دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اْنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔
آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے، سوال یہ ہے کہ فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ میں کیا فرق ہے اور کیا سیاسی جماعتوں کو بیرونِ ملک سے ملنے والی تمام فنڈنگ ممنوعہ ہے۔ممنوعہ اورفارن فنڈنگ کا معاملہ1962سے ہی پاکستان کی سیاست میں شامل رہا ہے۔اس دور میں پولیٹیکل پارٹی ایکٹ بنایا گیا جسکے بعد فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ بارے تمام سیاسی جماعتوں کو روک دیا گیا۔ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جوکسی غیرملکی حکومت،ملٹی نیشنل، پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔جبکہ الیکشن ایکٹ کے تحت اگر کوئی ملک یا اس کا کوئی ادارہ کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کو مالی مدد فراہم کرتا ہے اور الیکشن کمیشن کواس کے ثبوت ملتے ہیں توایسی فارن فنڈنگ پراس جماعت کی رجسٹریشن کو منسوخ اور ان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کیلئے وفاقی حکومت کو سفارشات بھیجنے کااختیار ہے،جبکہ کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ اگر کوئی شخص جو کہ پاکستانی نہ ہو اور یا اپنی پاکستانی شہریت چھوڑ چکا ہو اور وہ کسی سیاسی جماعت کوفنڈز دے توایسے فنڈز ممنوعہ فنڈنگ کے ذمرے میں آتے ہیں۔اس ایکٹ کا دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے،پر اطلاق نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکٹھے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں یاحکومتوں سے فنڈزحاصل کرنے والی پارٹی کو دیا جانے والا انتخابی نشان بھی واپس لیا جا سکتاہے اورپابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔اس جماعت کے سربراہ کو بھی غلط بیان حلفی دینے پر چارج شیٹ کر سکتا ہے کیونکہ ہر سال گوشوارے جمع کرواتے وقت جماعت کا سربراہ یہ بیان حلفی دیتا ہے کہ ان کی جماعت نے فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ حاصل نہیں کی۔الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 17کے سب سیکشن ون کے تحت وفاقی حکومت 15روز میں سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوائے گی اورعدالت عظمیٰ اس ریفرنس پر فیصلہ کرے گی۔قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت فنڈنگ کے ذرائع بتانے کی پابند ہے، اور ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے۔ فنڈنگ کیس کیلئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کیلئے مارچ 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی،جس کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں 31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ومشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا،برطانیہ، جاپان،سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق 26 بینک اکاؤنٹس سے فنڈزموصول ہوئے،لیکن پی ٹی آئی نے 13 بینک اکاؤنٹس گوشواروں میں چھپائے ہیں۔ یقینًاپاکستان تحریک انصاف پر فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پران کے اکاؤنٹس میں فنڈز ضبط ہونے کے علاوہ سربراہ عمران خان کے صادق اور امین ہونے پر بھی سوال اٹھایا جائے گا۔جس سے عمران خان کی ساکھ متاثر ہو گی اور ان کے کرپشن کے بیانیے کوبھی شدید دھچکا لگے گا۔کیونکہ پارٹی سربراہ مالیاتی گوشوارے جمع کرواتے وقت یہ بیان حلفی دیتا ہے کہ ان کی جماعت نے کوئی ممنوعہ فنڈنگ حاصل نہیں کی، جبکہ پی ٹی آئی قائدین کا یہ کہنا ہے کہ یہ بیان حلفی نہیں بلکہ ایک سرٹیفیکیٹ ہے۔ البتہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کر سکتی ہے تاہم اگر عدالت نے پی ٹی آئی کے حق میں حکم امتناعی جاری نہ کیاتو اس جماعت کیلئے مزید مشکلات ہو سکتی ہیں۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن ایکٹ نہیں بلکہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 لاگو ہوگا، پی پی او کے تحت فارن فنڈنگ میں غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیاں آتی ہیں۔الیکشن ایکٹ2017 میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ کسی  سے بھی فنڈز لینے کی ممانعت ہے لہٰذا سال 2017 تک کے تمام کیسز پر 2002 کے قانون کا ہی اطلاق ہوگا۔یوں کسی بھی جماعت کو فوری طور پر تحلیل نہیں کیا جاسکتا،آرٹیکل 17آئین میں واضح ہے ایسی فنڈنگ پرپارٹیوں کو تحلیل نہیں کیا جاسکتا لہٰذاالیکشن کمیشن خود سے پارٹی تحلیل نہیں کرسکتا، فنڈنگ ضبط کرسکتا ہے۔آئین کاآرٹیکل 17 الیکشن کے قانون بارے ہے اورالیکشن رولز کو دیکھتے ہوئے یقیناً فارن فنڈنگ اورممنوعہ فنڈنگ میں فرق ہے،اگر چند فارنرز نے تھوڑافنڈپارٹی کودے بھی دیاہے تووہ انفرادی طور پرکسی سیاسی جماعت کو کالعدم قراردینے کیلئے کافی نہیں ہوگا۔اگر عمران خان نے الیکشن کمیشن میں سرٹیفکیٹ دیا کہ اس نے کوئی ممنوعہ فنڈز نہیں لئے ہیں، اوراگرعمران خان کی عدم موجودگی میں ممنوعہ فنڈ ریزنگ ہوئی تو عمران کے سرٹیفکیٹ کو کیسے غلط قرار دیں گے؟ممنوعہ فنڈنگ کیس میں زیادہ سے زیادہ سزا جْرمانہ ہے اس کے علاوہ کْچھ نہیں ہے۔کیونکہ جو فیصلہ تحریک انصاف کے کیس میں آئے گا وہی فیصلہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر صادق آئے گا۔ اہم ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف کارروائی پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے تحت ہو گی یا الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت ہوگی۔ملک میں کئی قوانین وقتاً فوقتاً بنتے رہے جمہوری حکومتیں اور مارشل لاء ادوار میں الیکشن قوانین اوپر تلے بنے۔ جنرل مشرف نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر بنایاجو 1962ء کا ترمیم شدہ قانون ہے،جبکہ بعد ازاں انتخابی اصلاحات کمیٹی نے بھی کوئی کام نہ کیااور سارے پرانے قوانین کو جمع کر کے اس کا نام الیکشن ایکٹ 2017 رکھ دیا۔اگر نیا قانون بناتے تو کہاجاسکتاتھاکہ2 200 میںPPO کے بجائے الیکشن ایکٹ 2017کے تحت کارروائی ہو گی، جبکہ یہ پرانے قوانین ہی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو کے سوئس اکاؤنٹس اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لندن فلیٹس اور بینک اکاؤنٹس سب کے سامنے ہیں۔لیکن تاحال ملکی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی تھی،یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔اس کے بعد سے تاحال کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی۔ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی سمیت ملک کی دیگرچاربڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اورجمعیت علمائے اسلام ف کے خلاف بھی ممنوعہ ذرائع سے حاصل فنڈز سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہو رہی ہے۔الیکشن کمیشن پابند ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات سے قبل دیگرجماعتوں کے خلاف بھی ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق جو درخواستیں ہیں ان پر فیصلہ دے۔اگر انہی قوانین کو حتمی قانون مانا گیا تو سب پر لاگو ہوگا۔یہ کیس پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل چھ کے تحت سنا گیا۔ الیکشن کمیشن نے مزید یہ بھی فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 17 کے سیکشن تین کے تحت عمران خان کا دیا گیا بیان حلفی جھوٹ ہے۔ اصل گیم یہاں سے شروع ہوتی ہے اور گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی گئی ہے۔دیکھنا ہے کہ حکومت آرٹیکل 17 کے سیکشن تین کو جواز بنا کر ایک ریفرنس سپریم کورٹ دائر کرتی ہے کہ عمران خان صادق اور امین نہیں رہے لہٰذاانہیں بھی 63 ایف ون کے تحت نواز شریف کی طرح نااہل کیا جائے یا پھر تحریک انصاف ڈیل کرتے ہوئے نواز شریف کی وطن واپسی پر نرم پالیسی کا معاہدہ کرتی ہے۔بہرحال اگرمحض پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگی توپھرملک میں سیاسی عدم استحکام اورافراتفری پھیلنے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

تبصرے بند ہیں.