لوک کہانیاں، اقوال زریں، فرمودات، کہاوتیں، حکایات اپنے اندر صدیوں کا نچوڑ لیے کتابوں کا حسن اور زینت ہوتی ہیں۔ کوئی بھی بات جب ماورائے عقل ہو جائے تو ایک بار آپکا شعور آپ کے لاشعور میں بیٹھی ہوئی سوچ کو گدگدانے کی سعی ضرور کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان بنیادی طور ڈھیٹ اور اکھڑ طبیعت واقع ہوا ہے اور ہر مسئلے کا حل اپنی طبیعت اور اپنے فائدے کے موافق چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنی مرضی کی دلیل بھی تلاش کر لیتا ہے مگر جو کچھ بھی ہو جائے، چاہے انسان ستاروں پر کمندیں ڈال دے لیکن انسان خسارے میں ہے۔ انسان قبر میں جا گرتا ہے مگر سمجھتا نہیں یہ انسان کی غلطی بھی ہے اور دنیا داری انسان کی غلط فہمی بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بادشاہ کا گزر اپنی سلطنت کے ایک ایسے علاقے سے ہوا جہاں کے لوگ سیدھا نہر سے ہی پانی لے کر پیتے تھے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ عوام الناس کی سہولت کیلئے یہاں ایک گھڑا بھر کر رکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا اور ہر چھوٹا بڑا سہولت کے ساتھ پانی پی سکے گا۔ بادشاہ یہ کہتے ہوئے اپنے باقی کے سفر پر آگے کی طرف بڑھ گیا۔ شاہی حکم پر ایک گھڑا خرید کر نہر کے کنارے رکھا جانے لگا تو ایک اہلکار نے مشورہ دیا یہ گھڑا عوامی دولت سے خرید کر شاہی حکم پر یہاں نصب کیا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے اور ایک سنتری کو چوکیداری کیلئے مقرر کیا جائے۔ سنتری کی تعیناتی کا حکم ملنے پر یہ قباحت بھی سامنے آئی کہ گھڑا بھر نے کے لیے کسی ماشکی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ہفتے کے ساتوں دن صرف ایک ماشکی یا ایک سنتری کو نہیں پابند کیا جا سکتا، بہتر ہو گا کہ سات سنتری اور سات ہی ماشکی ملازم رکھے جائیں تاکہ باری باری کے ساتھ بلا تعطل یہ کام چلتا رہے۔ ایک اور محنتی اہلکار نے رائے دی کہ نہر سے بھرا ہوا گھڑا اٹھا کر لانا نہ تو ماشکی کا کام بنتا ہے اور نہ ہی سنتری کا۔ اس محنت طلب کام کیلئے سات باربردار بھی رکھے جانے چاہئیں جو باری باری روزانہ بھرے ہوئے گھڑے کو احتیاط سے اٹھا کر لائیں اور اچھے طریقے سے ڈھکنا لگا کر بند کر کے رکھیں۔ ایک اور دور اندیش مصاحب نے مشورہ دیا کہ اتنے لوگوں کو رکھ کر کام کو منظم طریقے سے چلانے کے لیے ان سب اہلکاروں کا حساب کتاب اور تنخواہوں کا نظام چلانے کے لیے منشی محاسب رکھنے ضروری ہونگے، اکاؤنٹنگ کا ادارہ بنانا ہو گا، اکاؤنٹنٹ متعین کرنا ہونگے۔ ایک اور ذی فہم و فراست اہلکار نے مشورہ دیا کہ یہ اسی صورت میں ہی یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ہر کام اچھے طریقے سے چلے تو ان سارے ماشکیوں، سنتریوں اور باربرداروں سے بہتر طریقے سے کام لینے کے لیے ایک ذاتی معاملات کا ایک شعبہ قائم کرنا پڑے گا۔ ایک اور مشورہ آیا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے مگر ملازمین کے درمیان میں لڑائی جھگڑا یا کوئی زیادتی ہو جاتی ہے تو ان کا تصفیہ اور ان کے درمیان میں صلح صفائی کون کرائے گا؟ تاکہ کام بلاتعطل چلتا رہے، اس لیے میری رائے میں خلاف ورزی کرنے والوں اور اختلاف کرنے والوں کی تفتیش کے لیے ایک قانونی امور کا محکمہ قائم کیا جانا چاہیے۔ ان سارے محکموں کی انشاء کے بعد ایک صاحب کا یہ مشورہ آیا کہ اس سارے انتظام پر کوئی ہیڈ بھی مقرر ہونا چاہیے ایک ڈائریکٹر بھی تعینات کر دیا گیا۔ سال کے بعد حسب روایت بادشاہ کا اپنی رعایا کے دورے کے دوران اس مقام سے گزر ہوا تو اس نے دیکھا کہ نہرکے کنارے کئی کنال رقبے پر ایک عظیم الشان عمارت کا وجود آ چکا ہے جس پر لگی ہوئی روشنیاں دور سے نظر آتی ہیں اور عمارت کا دبدبہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ عمارت کی پیشانی پر نمایاں کر کے ’’وزارت انتظامی امور برائے گھڑا‘‘ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ بادشاہ اپنے مصاحبین کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ایک علیحدہ ہی جہان پایا۔ عمارت میں کئی کمرے، میٹنگ روم اور دفاتر قائم تھے۔ ایک بڑے سے دفتر میں آرام کرسی پر عظیم الشان چوبی میز کے پیچھے سرمئی بالوں والا ایک پُر وقار معزز شخص بیٹھا ہوا تھا جس کے سامنے تختی پر اس کے القابات ’’پروفیسر ڈاکٹر دو جنگوں کا فاتح فلاں بن فلاں ڈائریکٹر جنرل برائے معاملات سرکاری گھڑا‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ اپنے وزیر سے اس عمارت کا سبب پوچھا، اور ساتھ ہی اس عجیب و غریب محکمہ کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ بادشاہ کے وزیر نے جواب دیا: حضور والا، یہ سب کچھ آپ کے حکم پر ہی تو ہوا ہے جو آپ نے پچھلے سال عوام الناس کی فلاح اور آسانی کے لیے یہاں پر گھڑا نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ بادشاہ مزید حیرت کے ساتھ باہر نکل کر اس گھڑے کو دیکھنے گیا جس کو لگانے کا اس نے حکم دیا تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ گھڑا نہ صرف خالی اور ٹوٹا ہوا ہے بلکہ اس کے اندر ایک مرا ہوا پرندہ بھی پڑا ہوا ہے۔ گھڑے کے اطراف میں بیشمار لوگ آرام کرتے اور سوئے ہوئے پڑے ہیں اور سامنے ایک بڑا بورڈ لگا ہوا ہے۔ ’’گھڑے کی مرمت اور بحالی کے لیے اپنے عطیات جمع کرائیں‘‘۔ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ کھلواڑ ہمارے بزرگوں نے بھگتا ہے۔۔ یہی ڈرامہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور اس سے بڑی زیادتی ہماری نسل نو کے ساتھ ہو رہی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ کہ نسل نو تو اپنی منزل کے تعین میں بھی بے بہرہ اور لاوارث نظر آ رہی ہے۔
بقول جاوید رامش
ہماری جھولیاں بوجھل ہیں اِس گرانی سے
وہ روز اپنے خسارے بھی ڈال دیتا ہے
Prev Post
تبصرے بند ہیں.