کیسے کہیں کہ جان سے اب وہ پیارا نہیں رہا۔یہ اور بات اب وہ ہمارا نہیں رہا۔اس کی جدائی میںآنسو ترے بھی خشک ہوئے اور میرے بھی۔خشک اب کسی صحرا کا کنارابھی نہیں رہا۔ہاتھوں پہ بجھ گئی ہے مقدر کی کہکشاں۔نہ جانے کہاں کھوگیا وہ ستاراجواب اس دنیامیںنہیں رہا۔ہاتھ شل،جسم مفلوج،آنکھیں آنسوؤں سے تراوردل غم والم میں ڈوباہواہے۔جب سے یہ خبرسنی ہے۔واللہ۔اس کے بعدسے دنیا کا کوئی اتا ہے اور نہ ہی اپنا کوئی پتا۔ مجھے خبربھی نہ ہوئی اور میرے بھائی، میرے دوست، میرے استاد، میرے شیخ اورمیرے محسن مولانا قاری محمدضیاء الحق حقانی ہمیں چھوڑکرہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوربہت دورچلے گئے۔اسلام کے ایک عظیم مجاہد،ایک سچے عاشق رسول اورصحابہ کرام ؓ کے ایک باکمال اور وفادار دیوانے کے اس طرح اچانک دور جانے کے بارے میں جب سوچتا ہوں تو۔واللہ۔ آنکھیں ساون بارش کی طرح برسنے لگتی ہیں۔اپنے اس عظیم بھائی کی جدائی کاجب خیال آتاہے تو صبر کے تمام بندھن ٹوٹنے اوردل کی دھڑکنیں تیزہوناشروع ہوجاتی ہیں۔ مولانا قاری محمدضیاء الحق حقانی سے ایک دودن کاتعلق اوررشتہ ہوتاتوہم بھی غیروں کی طرح چنددنوں تک آنسوبہاتے اورپونچھتے ہوئے دل کودلاسہ دے دیتے۔لیکن۔مولاناسے تومیرابرسوں کاتعلق،دل کا رشتہ اورپیارومحبت کا نہ ختم ہونے والاایک سلسلہ رہا۔ مولانا نے تواس وقت مجھے دل وجان میں جگہ دی جب لوگ غیروں کے ساتھ اپنوں میں بھی نفرت،حسد،کینہ اوردشمنیاں بانٹاکرتے تھے۔میں وہ دن کیسے بھولوں جب مولانا نے بڑا بھائی بن کر مجھے سینے سے لگایا۔ میری زندگی کے کئی سال مولاناکے سائے میں راولپنڈی کے اندر گزرے۔ مولاناکی وہ بے پناہ محبت،خالص پیاراورلمحہ لمحہ احسان کاوہ عرصہ میں بھولناچاہوں بھی تونہیں بھول سکتا۔جوزوی صیب۔پیار،محبت اورشفقت سے بولے جانے والے مولاناکے یہ الفاظ اور آواز تو مرتے دم تک کانوں سے ٹکراتی رہے گی۔ مولانا قاری محمدضیاء الحق حقانی کی اچانک جدائی ملک اورقوم کے لئے بہت بڑاسانحہ ہے۔مولاناجیسے لوگ اورہیرے صدیوں بعدپیداہوتے ہیں۔ مولانا میرے آبائی علاقے جوزمیں پیداہوئے لیکن زندگی آپ کی ساری راولپنڈی میں عوام ودین کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔آپ نے عشق رسول ﷺاورمحبت صحابہؓ کی خاطرزندگی کااکثرحصہ کال کوٹھریوں اورجیلوں میں گزارا۔آپ نے ہردورمیں حق اورسچ کاعلم بلندکیا۔وقت کے حکمران ہزارکوششوں اورلاکھ جتن کے باوجودآپ کوحق اورسچ کے راستے سے ہٹا نہیں سکے۔ آپ نہ صرف اسلام بلکہ ملک وقوم کابھی عظیم سرمایہ تھے۔آپ نے مسجدومدرسے میں رہ کرجس طرح بیوائوں، یتیموں، غریبوں، مسکینوں اورعام عوام کی جس طریقے سے خدمت کی وہ دنیاکے لئے ایک مثال ہے۔آپ نے نامساعداورکٹھن حالات کے باوجودنہ صرف جامع مسجدصدیق اکبرؓشاہ خالدکالونی کوآبادرکھنے کے لئے دن رات ایک کئے بلکہ آپ نے اپنی شب وروز کی محنت، کوشش اور اخلاص سے پورے علاقے اورکالونی کوبھی آباد کیا۔علاقے کاکوئی چھوٹاساچھوٹامسئلہ بھی کبھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا،اسی وجہ سے گھر،دراورعلاقے کاکوئی بھی مسئلہ ہوتاتولوگوں کی نظریں آپ ہی کی طرف مرکوز ہوتیں۔آپ کوئی وزیرتھے نہ کوئی مشیر۔آپ ایم این اے تھے اورنہ کوئی ایم پی اے، آپ علاقے کے ناظم اورکونسلربھی نہیں تھے لیکن آپ ایک خطیب اورامام ہوکراپنے علاقے کے لئے وہ وہ کام کر گئے کہ جوآج کے وزیر،مشیر،ایم این اے،ایم پی اے،ناظم اورکونسلربھی نہیں کرسکتے ۔آپ نے دین دشمنوں کے ساتھ امن اورترقی کے دشمنوں کی آنکھوں میں بھی ہمیشہ آنکھیں ڈالیں۔آپ نے حقیقت کی دنیامیں اپنے علاقے کوترقی کی راہ پرگامزن کرکے امن کاگہوارہ بنایا۔اپنے اوربیگانے کیاعلاقے کے سارے لوگ آپ کواپنے لئے مسیحاسمجھتے تھے۔آپ کی جدائی پرنہ صرف شاہ خالدکالونی کی پوری فضا سوگوار رہی بلکہ باہرسے آنے والی ہرآنکھ بھی اشکبار تھی۔ میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ علاقے کے بزرگوں اورجوانوں کوبھی مولانا قاری محمدضیاء الحق حقانی کی جدائی میں بلک بلک کرروتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے دیکھا۔کئی بزرگ توآسمان کی طرف منہ کرکے یہ فریادکرکے دکھائی دیئے کہ اے اللہ مولاناصاحب کوتوآپ نے اپنے پاس بلالیالیکن اب ہماراکیاہوگا۔؟مولاناکی اچانک جدائی سے چکلالہ کے عوام واقعی یتیم ہوگئے ہیں، وہی ایک مولاناصاحب توتھے جوان کے لئے ہر طوفان اورپہاڑسے ٹکراتے تھے۔اب کون ان کے لئے لڑے گا۔؟اب قدم قدم پرچکلالہ کے عوام کومولاناصاحب کی یادآئے گی۔یہ لوگ چاہتے ہوئے بھی مولاناصاحب کوکبھی بھول نہیں پائیں گے۔ مولانامرحوم کی ملک ،ملت اوردین کے لئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔عوامی خدمت کے ساتھ مولانانے دین کی خدمت پربھی بھرپورتوجہ دی،جامع مسجدصدیق اکبرؓشاہ خالدکالونی میں مدرسے کے ساتھ انہوں نے گلبہارمیں جامعہ ضیاء القرآن کے نام سے بھی ایک بڑامدرسہ قائم کیا۔اس مدرسے میں اس وقت تین چارسوکے لگ بھگ بچے علم کی پیاس بجھارہے ہیں۔ آپ مرتے دم تک منبرومحراب سے حق سچ کی پرچاراورمخلوق خداکی فلاح کے لئے آوازاٹھاتے رہے۔اب ڈھونڈنے سے بھی کوئی آپ سانہیں ملے گا۔اب باطل اورظالم کوآپ کے لہجے میں کون پکارے گا۔؟آپ نے جاتے جاتے ہمارے سمیت نہ صرف ہزاروں بلکہ اپنے لاکھوں عقیدت مندوں کو دکھی بہت دکھی کر دیا ہے۔ مولاناصاحب توجنت کے باغوں میں چلے گئے لیکن ہمیں پیچھے سوگوارچھوڑگئے۔ایسے ہی کسی عظیم شخصیت کی جدائی میں شائدشاعرنے کہا تھا کہ۔۔ بچھڑا کچھ اس اداسے کہ رت ہی بدل گئی۔۔ایک شخص سارے شہرکوویران کرگیا۔مولانانے جاتے جاتے بلاکسی شک وشبہ کے سارے شہرکوویران کر دیا ہے۔آپ جیسوں کے بارے میں ہی تو کہاگیاتھاکہ آپ جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔۔اب اس دنیامیں آپ جیساکوئی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔رب کریم سے دعاہے کہ وہ آپ کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور آپ کے تمام لواحقین ومتعلقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین
Next Post
تبصرے بند ہیں.