"کارکرگی سے زیادہ خوبصورتی دیکھی جاتی ہے، شارٹس پہن کر کھیلنے پر بھی اعتراض کیا گیا”

208

 

پشاور : سکواش کی انٹرنیشنل کھلاڑی نورینہ شمس کہتی ہیں کہ پاکستان میں کارکردگی سے زیادہ خوبصورتی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ کریئر کے شروع میں اس طرح کی باتیں بھی سننے کو ملیں کہ میں بہت خوبصورت ہوں یا بہت پُرکشش ہوں لہٰذا ہر کوچ میرے ساتھ ٹریننگ کرنا چاہتا تھا

 

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی سکواش کی انٹرنیشنل کھلاڑی نورینہ شمس  برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں پاکستان میں خواتین کھلاڑیوں کے مسائل پر کھل کر گفتگو کی۔

 

انہوں نے کہا کہ سکواش کھیلنے والی جن لڑکیوں کے بھائی اور والد ہیں وہ اپنی بیٹیوں کے لیے ڈھال ہوتے ہیں لیکن جن لڑکیوں کے والد یا بھائی نہیں ہیں انھیں گھر سے باہر نکلنے پر مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے مجھے کرنا پڑا۔

 

نورینہ شمس کہتی ہیں ہمارے معاشرے میں کسی لڑکی کے لیے گھر سے اجازت اور اس کا ٹریک سوٹ پہننا ہی سب سے پہلی جنگ ہے۔ بجٹ اور ٹریننگ کی سہولتیں تو بعد کی باتیں ہیں۔ میں نے کارلا خان اور ماریہ طور کی طرح شارٹس پہن کر اسکواش کھیلی تو میری کارکردگی کے بجائے میرے شارٹس کو دیکھا جاتا تھا اس پر اعتراض بھی ہوا۔

 

انہوں نے کہا کہ اس بات کا کسی کو اندازہ نہیں کہ ایک خاتون کھلاڑی جس ذہنی اذیت سے گزرتی ہے اس ذہنی صدمے سے نکلنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔خواتین کھلاڑیوں کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ان کی ٹریننگ بھی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح مرد کھلاڑیوں کو دی جاتی ہے۔

 

نورینہ شمس کہتی ہیں کہ ہمارا نظام تباہ ہو چکا ہے جو حق دار لڑکیاں ہیں انھیں آگے نہیں آنے دیا جاتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب خواتین کھلاڑی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں تو انھیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.