دیر ہے اندھیر نہیں

68

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قدرت باطن کو ظاہر کیے بغیر کسی شخص کا کردار مکمل نہیں کرتی۔ گویا اکثریتی انسان مرنے سے پہلے ہی کردار اور اصلیت کے اعتبار سے دنیا پر منکشف ہو گئے۔ جعلی بڑھک باز بُرے حالات سے مڈبھیڑ ہو تو ایک جھڑک کی مار بھی نہیں نکلتے۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ فارن فنڈنگ کیس میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کا لفظ استعمال کر کے مولانا سعد رضوی اور دیگر بلکہ پی ٹی آئی بھی خوش ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ ہے فارن فنڈنگ نہیں لہٰذا وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں اس سقم یا کم از کم پی ٹی آئی کی حمایت سمجھتے ہیں ممنوعہ فنڈنگ جس کا 68 صفحات پر ذکر ہے وہ ساری کی ساری فارن فنڈنگ ہے اور ویسے بھی الیکشن کمیشن نے معاملہ حکومت اور عدلیہ کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ حکومتی خزانہ میں جمع ہو سکتی ہے جبکہ فارن فنڈنگ پارٹی تحلیل، قیادت پر تاحیات پابندی اور قید بھی ہو سکتی ہے لیکن عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ متعلقہ مقدمہ فارن فنڈنگ ہے اور عدالت عظمیٰ میں زیرک جج صاحبان بیٹھے ہیں ان کے لیے فیصلہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ یہ ممنوعہ فنڈنگ دراصل فارن فنڈنگ ہے اس فیصلہ پر فوزیہ قصوری نے چار حرف میں تجزیہ کیا کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ یہ ایک ایسا فقرہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہر اس شخص سے سنا جو ظالم کے سامنے بے بس ہو گیا اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ فوزیہ قصوری کون ہے سوائے اس کے کہ وہ پی ٹی آئی کی کوئی سابقہ عہدیدار تھی۔ شیخ رشید جو اپنے آپ کو شیخ سعدی سمجھتا ہے، نے کس بل پر بے نیازی سے کہہ دیا کہ عدالت پہلی پیشی پر فیصلہ یا فائنڈنگ اڑا دے گی۔ حالانکہ یہ فائنڈنگ ایسی ہے کہ پہلی پیشی پر ہی ’’تانگہ آ گیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی‘‘، والا معاملہ ہے۔ ساری دنیا کو چور چور کہنے والے کو معروف صوفی بزرگ کے دربار پر حاضری اور دہلیز پر سجدہ ریزی کے دوران لوگوں نے چور چور کے نعرے لگا دیئے۔ اگر میں روحانی فیض کی بات کروں، صوفی ازم کی بات کروں بابا فرید کی درگاہ پر جب بشریٰ مانیکا(سابقہ خاتون اول) گئی تھی اور اس کے لیے بہشتی دروازہ یا خاص دروازہ نہیں کھولا گیا تھا نتیجتاً انتظام و انتصرام سنبھالنے والوں کو تادیبی کارروائی کا سامنا پڑا۔ اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو بابا جی نے دراصل ان کی حاضری کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نے غور کیا کہ اس دن کے بعد سابقہ وزیراعظم تمام تر دنیاوی حمایت کے باوجود سیاسی طور پر بیک گیئر میں چلے گئے بالآخر فارن فنڈنگ مقدمہ کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ بیرون ممالک کی کمپنیاں اور درجنوں
افراد جن میں بھارتی اور اسرائیلی بھی شامل ہیں، اتنا بڑا نیٹ ورک اتنا بڑا بین الاقوامی رابطہ تو سوچ کر خیال آتا ہے کہ یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہو سکتی یہ تو کوئی تنظیم ہے جس کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ آپ لوگوں نے غور نہیں کیا کہ جب سے میرے آقا کریم ﷺ کے در اقدس پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ بے حرمتی کا اہتمام کیا اس دن سے ان کے لیے آنے والا ہر دن بُرا دن ثابت ہوا اور اس پر سابقہ وزیراعظم کے بیانات اللہ کی پناہ کہ جس طرح اللہ کے نبی اللہ کا پیغام لوگوں کے پاس لے کر جایا کرتے تھے آپ اسی طرح میرا پیغام لے کر جائیں، قبر میں سوال ہو گا کہ عمران خان کا ساتھ دیا تھا کہ نہیں؟ جس نے پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ کیا اس نے شرک کیا۔ ان گنت بکواسیات ہے میں کیا کیا گنواؤں۔ سبطین خان نیا متنازع سپیکر پنجاب اسمبلی مبارک باد وصول کرنے گیا وہ تصویر وائرل ہو گئی، عمران خان لیٹا ہوا ہے اور اس رعونت اور تکبر کے ساتھ کہ میرے پاس الفاظ نہیں اور درمیان میں کتا یوں بیٹھا ہے جیسے ٹرانسلیٹر ہو۔ اس سبطین خاں جس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ بہت امیر آدمی ہے ایسی سپیکر شپ لینے سے بہتر تھا یہ کوئی پلمبر ہوتا، کوئی ریڑھی بان ہوتا جس کی انا تو برقرار رہتی۔ پھر اس پر ہی نہیں اگلے دن چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے دفتر سابقہ وزیراعظم کو  دیکھا۔ یہ درجہ بندی کا پروٹوکول ہے کہ آئی جی پولیس بھی کسی تھانے میں آئے گا تو انسپکٹر کے دفتر میں انسپکٹر کی کرسی پر انسپکٹر بیٹھے گا، آئی جی سامنے بیٹھے گا۔ کوئی بھی بڑا آفیسر، بڑا عہدیدار چھوٹے آفیسر یا عہدیدار کے دفتر میں جائے گا تو وہ اس کے دفتر میں اس کی کرسی پر نہیں بیٹھے گا، سامنے بیٹھے گا یا زیادہ سے زیادہ متعلقہ ماتحت اپنی کرسی چھوڑ کر سامنے سائیڈ کی کرسی پر آ جائے گا۔ یہ دراصل سابقہ وزیراعظم کے اندر کی رعونت، نرگسیت، خودپسندی، تکبر کی وہ فطرت ہے جو اس کے بدن سے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہے کہ مجھے کوئی کرسی دے دیں۔ مگر گزرا ہوا وقت نہیں آیا کرتا۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلہ میں چند اکاؤنٹ سابقہ وزیراعظم کے نام سے کھلے اور کروڑوں کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی بنک اکاؤنٹ کھولے، دستخط کرے، ٹرانزیکشنز ہوں اور کہے کہ مجھے پتہ نہیں یا کوئی قانون دان کہے کہ عمران کی حد تک بد نیتی کا عنصر نہیں یا کوئی منصف ہی لقمہ دے دے کہ ہو سکتا ہے انہیں علم نہ ہو۔ بیان حلفی کے جھوٹا ہونے کی بھی یہی صورت حال ہے بہر حال اس موضوع پر دوست بہت پروگرام کر چکے، لکھ چکے۔ بات صرف یہ ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ چور چور ڈاکو ڈاکو کہنے والے کے سامنے سیکڑوں آئنے یکدم اکھٹے آ گئے۔ میں سوچتا ہوں پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سابقہ وزیراعظم کے سامنے بیٹھ کر اور پرویز الٰہی کے ساتھ بغل گیر نہ ہونے پر آپس میں نظریں کیسے ملاتے ہوں گے۔ آخر چودھری ہیں کہ مولا خوش رکھے عام آدمی نہیں ہیں، کوئی بھی بات منکشف ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ تاریخ پاکستان کا دلچسپ واقعہ ہے: ’’یونینسٹ پارٹی کو زوال ہو رہا تھا، ایک زمیندار خاندان کے سربراہ کو گورنر ہاؤس سے پیغام ملا کہ اب ملک تقسیم ہو کر رہے گا۔ اس لیے وہ مسلم لیگ میں شامل ہو جائے۔ اسے بتایا گیا کہ اس کے بیٹے کو حراست میں لیا جائے گا۔ جب اسے جیل کی طرف لے جا رہے ہوں تو وہ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے منہ پر ایک طمانچہ مارے اور نعرہ لگائے ’پاکستان زندہ باد‘۔ یوں اس خاندان کو مسلم لیگ میں شامل کر لیا جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس قصے کی شہرت پورے شہر میں پھیل گئی، جب وہ جیل سے باہر آیا تو لوگ اس کے استقبال کے لیے موجود تھے اور وہ ’اپنی شاندار خدمات‘ کی وجہ سے مسلم لیگ میں اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ یہ عمران ریاض شہباز گل حوالات میں بند جتنی مرضی ڈرامہ تصویریں وائرل کرا لیں ’’میں نئیں بولدی میرے وچ میرا یار بولدا‘‘ کا بھید منکشف ہو ہی جایا کرتا ہے۔ بہر حال ثاقب نثار کے قرار دیئے گئے صادق اور امین کو الیکشن کمیشن نے سارق اور کذاب قرار دے دیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.