پتھر دل لوگ

19

نجانے اس شخص کی فریاد نے ان اداروں کے دل پر کوئی اثر بھی کیا ہے یا نہیں جو دریا کے کناے بیٹھا اپنے بچے سیلاب کی نذر ہوجانے پر خون کے آنسو رو رہا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اِس اور دیگر وڈیوز نے ہر درد مند فرد کے دل کو ہلا کے رکھ دیا ہے، سیلاب میں تیرتی بچوں کی لاشیں، ڈوبتے گھرانے ،بے بسی میں چلتے جانورارباب اختیار کی گورننس کی کلی کھول رہے تھے۔
یہ پہلا سانحہ اور سیلاب نہیں تھا، سیلاب کی آمد تو ہر سال مون سون میں ہوتی ہے، اگر آپ ٹریک ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو کوئی سال ایسا نہیں گذرا جس میں سندھ، بلوچستان، کراچی،راجن پور، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب کے علاقے زیر آب نہ آئے ہوں، مکینوں کو نقل مکانی کا دکھ نہ اٹھانا پڑا ہو، ہلاکتیں نہ ہوئی ہوں، گویا ہمارے ہاں ادارے اس کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں مذکورہ علاقہ جات کے نصیب ہی میں ایسالکھا ہے۔سیلاب ایک قدرتی آفت ہے، بارشوں کا ہونا فطری عمل ہے، اس لئے ادارے خود کو بری الذمہ تصور کرتے ہیں، ان کے نزدیک مرنے والوں کی موت ہی ایسی لکھی تھی، فصلوں کی تباہی سے بچنا کیسے ممکن ہے، البتہ مالی اور جانی نقصان کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ سیلاب ہر سال ایک بڑی تباہی کا دکھ دے کر گذر جاتا ہے ، عوامی دبائو کی بدولت حکمران مالی امداد کے اعلانات کرتے ہیں، اس نازک موقع پر متاثرین کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں، ہیلی کاپٹر سے فضائی جائزہ لیتے ہیں، مالیہ، آبیانہ معاف کرتے ہیں  ، اس کے بعد متعلقہ ادارے سب کچھ بھول جاتے ہیں،اور پھر پرانی ڈگر پر حکمرانی چلتی رہتی تاآنکہ نیا سیلاب نہیں آجاتا۔
سیلاب کو کنٹرول کرنے کیلئے پہلے فیڈرل فلڈ کمیشن کاادارہ تھا مگر 2007 سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کی موجودگی کے باوجود متاثرین سیلاب کے غم کم نہیں ہو سکے ہیں۔
2011 میں سیلاب میں ہلاکتوں اور فصلوں کی تباہی کے پیش نظر سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے از خود نوٹس  لیتے ہوہے تین رکنی کمیشن قائم کیا جس کی رپورٹ کی روشنی میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کوغفلت اور بدعنوانی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم نیز محکمہ آبپاشی کا دس سال کا آدٹ کرانے کا حکم دیا گیا، گمان یہ ہے اس پر بھی ایسا ہی عمل ہوا جیسا ماضی میں دوسری رپورٹوں پر ہوتا آیا ہے، ورنہ سیلاب کی روک تھام کے کچھ اقدامات تو عوام کے سامنے آتے۔
مذکورہ اتھارٹی بھی فلڈ کمیشن کی طرح صرف وارننگ جاری کرتی ہے یا زیادہ سے زیادہ ایمرجنسی نافذ کرتی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ کچے کے علاقہ میں لوگ بااثر افراد کی پشت پناہی سے زمین پر قابض ہو جاتے ہیں اپنے گھر تعمیر کر لیتے ہیں، فصلیں کاشت کرتے ہیں، سیلاب میں ان کا سب کچھ بہہ جاتا ہے تو یہ سرکار سے امداد لے کر نئی جگہ گھر بناتے ہیں، سیلاب کے خاتمہ کے بعد پھر قبضہ کر لیتے ہیں۔اس لئے ہلاکتیں زیادہ ہوتی ہیں۔لیکن جب یہ لوگ رہائش اختیار کرتے ہیں تو کوئی ادارہ بھی اس کا نوٹس نہیں لیتا، یہی معاملہ دریائوں کی ٖصفائی کا ہے، جہاں جگہ جگہ رکاوٹیں بنائی جاتی ہے، ان کے پشتوں سے مٹی اٹھائی جاتی ہے انھیں کمزور کیا جاتا ہے، سیلاب کا ریلا سب کچھ بہا لے جاتا ہے یوں پانی ہر سو پھیل جاتا ہے، یہ ساری سرگرمیاں متعلقہ محکموں کی ناک کے نیچے مسلسل جاری رہتی ہیں، مگر روایتی خاموشی سے کام لیا جاتا ہے۔
ہمارے تین دریا توایسے جو سارا سال خالی رہتے ہیں، جن ستلج، سکھ، بیاس اور راوی ہے، سکھ بیاس کا وجود تقریباً ختم ہو چکا ہے اس پر ملحقہ زمینداروں نے قبضہ کر رکھا ہے، مگر کسی ادارے نے اس کا نوٹس لینے کی بھی زحمت نہیں کی ہے، یہی حال راوی کا ہے جہاں تجاوزات کی بھر مار ہے، ہمارا آبپاشی نظام دنیا کا بہترین نظام ہے، ہر دریاکا پانی دوسرے دریا میں نہروں سے منتقل کیا جا سکتا ہے مگر اسکی راہ میں اصل رکاوٹ وہ تجاوزات ہیں جو دریائوں کے درمیان واقع ہیں، اس کے علاوہ سیکڑوں ندی اور برساتی نالے ہیں،سیلاب کے دنوں میں یہ بھی  بڑے کارآمد ہو سکتے ہیں اگر پہلے سے انکی دیکھ بھال ہو، تو بہت سا پانی انکی وساطت سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، چونکہ یہ بھی صاف نہیں کئے جاتے اس لئے ان کا پانی بھی فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اس سال کے سیلاب نے تو شہروں کو بھی ڈبو دیا ہے ، جو اس بات کی شہادت ہے کہ نالوں کی صفائی بھی واجبی سی ہوتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کراچی شہر کیلئے وزیر اعلیٰ نے2020 میں بیس کروڑ ویسٹ مینجمنٹ کو دیئے، اس کے باوجود حالیہ بارشوں میں پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمسایہ ملک چین کو سیلاب کی ناگہانی صورت حال کا سامنا رہا ہے، اس کا تیسرا بڑا دریا  یانگسی ہے جو چین 16صوبوں سے گذرتا ہے،سب سے بڑی آفت وہی لاتا ہے مگر بہترین انتظام سے چین نے اس کے سیلاب پر قابو پایا ہے، ہمارے لئے بھی اس میں پیغام ہے، ایک تو کچے کے علاقہ میں لوگوں کو اس نے منظم انداز میں بسایا ہے، نیز دریائوں کے کنارے جنگلات کے کاٹنے کی کڑی سزا مقرر کی ہے،تیسرا ماحول، ایکو سسٹم اور معیشت کے لئے مربوط پالیسی مرتب کی ہے، علاوہ ازیں دریائوں کو کنٹرول کرنے کی ایک ہی اتھارٹی بنائی گئی ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے دریائوں کے کنارے درخت ہی درخت ہوتے تھے، یہ سیلاب کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے تھے، اب تو یہ خال خال کناروں پر نظر آتے ہیں، اسی طرح دریائوں کے پشتوں کی مکمل نگرانی بھی محکمہ کی اولین سرگرمی ہوتی تھی، اب یہ کلچر دکھائی نہیں دیتام درخت کب اور کیسے غائب ہوئے راوی اس لئے خاموش ہے کہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، ہر بڑے دریا پر اب بھی افسران کے ریسٹ ہائوسز ہیں، انکی تعمیر کا مقصد بھی پانی کے نکاس اور محکمہ کے اثاثہ جات کی مانیٹرنگ تھا محکمہ کی ناقص کارکردگی کا ہی فیض ہے کہ عوام ہر سال سیلاب میں ڈوبنے کو مقدر سمجھتے ہیں، میدانی کے علاوہ پہاڑی علاقہ جات میں بھی ٹمبر مافیا اپنے قدم جما رہا ہے، حدت کی وجہ سے گلیشئر بھی پگھل رہے ہیں، گویا یہ بھی ایک الارمنگ صورت حال ہے، اس کے باوجود ہمارے ادار طویل المعیاد منصوبہ بندی سے عاری ہیں جس کی سزا ہر سال غریب اور پسماندہ عوام کو سیلاب اور جانی ومالی نقصان کی صورت میں ملتی ہے، ارباب اختیار اپنی سیاسی لڑائی لڑنے اور متعلقین اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں، ان کے دلوں پر کوئی غیر معمولی صدا بھی دستک نہیں دیتی یا تو یہ پتھر دل ہیں یا انکی انسانیت بھی کسی سیلاب میں عوام کی طرح ڈوب چکی ہے۔ انڈیا کی جانب سے اچانک دریائوں میں پانی چھوڑنے کا دکھ اس کے علاوہ اور تاحال حل طلب ہے۔

تبصرے بند ہیں.