عوام بیدار ہو چکے ہیں

36

اقتدار بچانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے فریقین باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ان کے ذریعے ایک دوسرے پر الزامات پے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ آج کل فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے الزاماتی طوفان برپا ہے۔ پی ڈی ایم اور اس کا ہمنوا میڈیا خوب اس کیس کو اچھال رہا ہے مگر عمران خان اور ان کی جماعت کے عہدیداران اپنے دفاع میں مختلف جواز پیش کر رہے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو بیک وقت تینوں جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے کیس بھی سننے چاہئیں تھے مگر الیکشن کمیشن ایسا کرنے سے نجانے کیوں قاصر ہے۔
اس اقتدار کی رسہ کشی میں حکمرانوں کو اپنے فرائض کا کوئی خیال نہیں ان کی نگاہ صرف کرسیوں پر مرکوز ہے جبکہ عوام کی نظر ان پر جمی ہوئی ہے کہ کب وہ ان کے لیے خوشحالی کے در وا کرنے کے لیے کوئی اعلان کرتے ہیں۔ لوگوں کی یہ خواہش ہمیں مستقبل قریب میں پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ ہمارے حکمران طبقے کا کبھی یہ پروگرام نہیں رہا انہیں تو اپنے مفادات کے لیے اقتدار میں آنا ہوتا ہے اس کے لیے وہ واشنگٹن کو راضی رکھتے ہیں اس کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں پھر آئی ایم ایف کو بھی خوش رکھنا ان پر لازم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایسے منصوبے نہیں بن سکے جو ہمیں ترقی کے راستے پر ڈال دیتے بس وہی منصوبے بنے جن سے عارضی فائدہ ہوتا۔ اس وقت دیکھا جا سکتا ہے کہ ہم معاشی طور سے بے بس ہو رہے ہیں روز بروز معیشت کی ناؤ ہچکولے لے رہی ہے اور اگر آئی ایم ایف اگلی قسط ادا نہیں کرتا تو صورت حال انتہائی خراب ہو جائے گی مگر ہمارے سیاستدان چین کی بانسری بجا رہے ہیں انہیں اس گمبھیرتا کا کوئی احساس نہیں۔ انہیں اقتدار سے پیار ہے سو وہ جوڑ توڑ کر رہے ہیں اور سبھی اس کوشش میں ہیں کہ اقتدار پورے کا پورا انہیں حاصل ہو جائے۔ بہرحال عام آدمی رو رہا ہے پیٹ رہا ہے اپنا سر کہ وہ پچھہتر برس کے بعد بھی اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے سے محروم ہے اسے معاشی سماجی اور سیاسی طور سے عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے بچوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے ان حکمران طبقات نے اب تک زیادہ تر اپنی تجوریاں ہی بھری ہیں انہوں نے کرپشن کی انتہا کیے رکھی ہے قرضہ لے لے کر اسے غلام بنا کر رکھ دیا اب پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہوتا ہے ان کے بچے اربوں میں کھیل رہے ہیں ان کی بڑی بڑی جائیدادیں ہیں اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی یہاں کے غریبوں کے بچے تعلیم صحت انصاف اور روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ آنسو بہا رہے ہیں مگر یہ طبقہ اشرافیہ ان کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا اسے اپنی فکر کے علاوہ کچھ اور نہیں سوجھتا لہٰذا حالات سب کے سامنے ہیں ہم ایسے دو راہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کو ناراض کرتے ہیں تو بھی مشکل میں اور اگر امریکا ہم سے خفا ہوتا ہے تو بھی پریشانیاں ہیں مگر اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ اگر اسی طرح چلنا ہے تو پھر بات نہیں بنے گی زندگی میں کوئی تازگی اور آسانی نہیں آئے گی غربت اور افلاس اسی طرح موجود رہیں گے لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ عوام خود اپنی قیادت کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ان حکمرانوں نے ہمیشہ دھوکا دیا ہے۔ مایوس کیا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ آگے کیسے آئیں وہ شاہراہ احتجاج پر آئیں حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں انہیں مجبور کر دیں کہ وہ ان کے سپنوں کو مجسم کرنے کے لیے میدان عمل میں کودیں اس نظام زر کو خیر باد کہیں ایوانوں میں انہیں بھی بھجوائیں بہت ہو چکا اب نہ تو وہ بیوقوف بنیں گے اور نہ ہی ان کو اپنا ووٹ دیں گے پھر وہ یہ بھی انہیں بتائیں گے کہ انہوں نے جو کرپشن کی ہے یعنی یہ جو انہوں نے محلات تعمیر کیے ہیں اور ملیں فیکٹریاں بنائی ہیں اس کا حساب دیں۔ ویسے اب ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں سوشل میڈیا نے عوام کی سوچ بدل دی ہے۔ان حکمران طبقات کے کالے کرتوت ظاہر کر دیے ہیں ایک شعوری تبدیلی آچکی ہے لہٰذا یہ لوگ از خود بدل جائیں کیونکہ وہ دور لد گیا جب یہ جو کہتے تھے اور عوام مان لیا کرتے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ عوام میں آجائیں آئی ایم ایف اور واشنگٹن سے اپنا دامن چھڑا لیں کرپشن کے زہر کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیں اس کرپشن نے ہی ہمارے ملک کی معیشت کو کمزور کیا ہے وگرنہ امریکا سمیت اس جیسے اور بھی ممالک آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اور اس سے بھاری قرض لیتے ہیں مگر وہاں کی معیشت کو کچھ نہیں ہوتا اور جب کبھی وہ متزلزل ہوتی بھی ہے تو وہ جلد ہی معمول پر آجاتی ہے یہاں تو اندھیر مچا ہوا ہے کرپشن کہانیاں عام ہیں جس سے قرضہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اسے اتارنے کے لیے مزید قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں عوام پر ٹیکس در ٹیکس لگائے جا رہے ہیں آئے روز پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ تو کوئی حل نہیں‘ حل یہ ہے کہ سب سے پہلے کرپشن پر قابو پایا جائے جس جس کے ذمے جو ہے جتنا ہے وہ قومی خزانے میں جمع کرائے ویسے بھی حکمرانوں کو اس کڑے وقت میں اپنے ذاتی خزانوں کا منہ کھول دینا چاہیے مگر یہ ایسا نہیں کریں گے انہیں اقتدار چاہیے اس کے حصول کے لیے آخری حد بھی جا سکتے ہیں لہٰذا دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران کس قدر چیخ و پکار کر رہے ہیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے قانونی و غیر قانونی کارروائیاں کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں مگر ہم مکرر عرض کریں گے کہ انہیں اس ملک کے ستم سہنے والے عوام کا کوئی خیال نہیں وہ رل رہے ہیں برباد ہو رہے ہیں انہیں اپنی زندگیوں کے لالے پڑ چکے ہیں مگر یہ بڑی طاقتوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ جو کہہ رہے ہیں اس پر من و عن عمل درآمد کر رہے ہیں اور بے چارے لوگ مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں انہیں اس میں سے نکالنا ہو گا بصورت دیگران میں نفرت کا طوفان جنم لے گا جو ہر اس ستمگر کا محاسبہ کرے گا جس نے ان کی جینے کی راہ میں کانٹے بکھیرے۔ حرف آخر یہ کہ حکمرانوں کو اپنی نہیں عوام کی بات کرنی چاہیے وہ اب روایتی طرز سیاست کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ عوام بیدار ہو چکے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.