کیا اخلاقی گراوٹ کی کوئی حد ہے؟

13

سیاستدان بالخصوص حکومت میں شامل لوگوں اور افسر شاہی کی باتوں اور وعدوں پر یقین کیونکر کیا جائے کیونکہ ان کے جھوٹ اور وعدہ خلافیوں کی تو ایک لمبی فہرست ہے۔ لیکن ایک بات ضرور کرنی چاہیے کہ وقتاً فوقتاً ان کو انہیں کی باتیں یاد بھی کراتے رہنا چاہیے۔ ہمارے نظام میں ایک ایس ایچ او سے لے کر وزیر اعظم تک جب بھی کوئی نئی تعیناتی ہوتی ہے تو قانون کی مکمل عملداری،قانون شکنی کے خلاف صفر برداشت اور مجرموں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالنے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے جیسے مونو ٹائپ بھاشن سننے کو ملتے ہیں لیکن کئی سال بعد اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑ چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جب حکومت میں آئے تو ہر کسی کو(ماسوائے ان لوگوں کے جو انہیں ذاتی طور پر جانتے تھے)ان سے بہت سی امیدیں تھیںلیکن پونے چار سال میں ہمیں سوائے کھوکھلے نعروں اور الزام تراشی کے کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آیا۔ ویسے تو خان صاحب کی وعدہ خلافیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے لیکن آج ایک ہی دعویٰ کا ذکرہوگا۔
حکومت میں آنے کے بعد ملک میں خواتین اور بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے درندگی کے واقعات پر خان صاحب کافی سیخ پا دکھائی دیے۔ انہوں نے ریپ جیسے جرائم کے مرتکب افراد کو سزائیں دلوانے کے لیے نہ صرف خصوصی اقدامات کا اعلان کیا بلکہ کچھ نئی قسم کی سزاوں کی بھی تجویز دی۔ ان کی باتوں سے عوام کو کافی امید بھی ہوئی لیکن افسوس کئی سال میں یہ باتیں صرف دعوے ہی رہے۔ آج جب پنجاب میں ایک مرتبہ پھر سے عمران خان صاحب اور ان کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے تو انہیں ایک ایک کر کے ان کے ماضی کے دعوے اور وعدے یا د کرانا بھی ضروری ہے۔
ڈوب مرنے کا مقام ہے حکومت وقت کے لیے کہ اگر ریپ جیسے ظلم کا شکار ہونے والے اپنی اور اپنے خاندان والوں کی بدنامی کے خوف سے ایسے واقعات کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے اجتناب برتیں۔ اور اگر کوئی ہمت دکھائے تو اسے اس تھانے جہاں وہ واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے گئے ہوں سے لے کر عدالتوں میں وکلا کے رویے ، میڈیا اور معاشرے میں ایک تماشا بنا دیا جائے۔ انہیں ایسا اچھوت سمجھا جائے کہ قریبی دوست ، ہمسائے اور رشتہ دار بھی کنی کترانا شروع کر دیںگویاوہ کسی ظلم کا شکار نہ ہوئے ہوں بلکہ انہی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہو۔
حکومتیں اگر واقعی خلوص کے ساتھ کچھ کرنا چاہیں تو انہیں کوئی زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے قوانین میں دیگر جرائم کی طرح ریپ جیسے گھنائونے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے قانون بھی موجود ہے اور سزائیں بھی، لیکن بدقسمتی سے ان قوانین میں ایسے سقم موجود ہیں کہ ہمارے وکیل بھائی (تمام نہیں) مجرموںکو باآسانی قانون کے شکنجے سے نکال کر لے جاتے ہیں ۔ بس حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی بھی قانون کی ناک مروڑ کے اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اس سے نہ صرف مجرموں کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ سماجی جرائم کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
بلاشبہ پاکستان میں قانون بنانے والے اور قانون پر عملدرآمد کرانے والے ادارے ریپ اور دیگر اخلاقی جرائم پر قابو پانے اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بری طرح ناکام ہیں ۔ اگرچہ اس قسم کا جرم کرنے والے کے لیے ملک کا قانون موت کی سزا تجویز کرتا ہے لیکن کسی بھی مجرم کو اس مقام تک پہنچانااس قدر مشکل اور صبر آزما ہے کہ بمشکل ہی کسی کو سزا ہو پاتی ہے۔ یہ بات تو ان کیسز کی ہے جو پولیس کے پاس یا کسی اور فورم پر رجسٹر ہوتے ہیں ۔لیکن ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد سے زائد کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور ظلم کا شکار ہونے والے اپنی عزت کے خوف سے یا کسی اور مصلحت کے تحت ان معاملات کو کسی فورم پر رپورٹ نہیںکرتے ہیں اور اگر کسی طور یہ معاملات رپورٹ ہو بھی جائیں تو بھی کسی نہ کسی سطح پر عدم پیروی کی وجہ سے خارج ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی جانب سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میںہردو گھنٹے بعد ایک ریپ کا وقوعہ پیش آتا ہے جبکہ ہر چار سے سات دن میں ایک گینگ ریپ کا واقعہ پیس آتا ہے۔
حکومت اگر خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو کنٹرول کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ اس قسم کے مقدمات کوڈیل کرنے کے لیے علیحدہ ادارے بنائے جائیں جن کے پاس پولیس اور مجسٹریٹ دونوں کے اختیارات ہوں اور ان کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہو کہ کسی مظلوم کی عزت نفس پر کوئی آنچ نہ آئے۔ خصوصی طور پر تربیت یافتہ مرد اور خواتین پولیس افسران کے علاوہ ماہرین نفسیات اور درد دل رکھنے والے وکلا ان اداروں کا حصہ ہوں اور یہ ادارے نہ صرف مقدمات درج کرنے کے مجاز ہوں بلکہ اس قسم کے مقدمات کو سننے کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالتوں میں یہ ادارے مقدمات کی پیروی بھی کریں۔

تبصرے بند ہیں.