یہ سلسلہ کب تھمے گا؟

20

نجانے اس ملک پر کس آسیب کا سایہ ہے۔ ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، تو کئی قدم پیچھے کی جانب لڑھک جاتے ہیں۔ پچھتر برس ہونے کو آئے ہیں، لیکن آج تک ہمیں سیاسی استحکام نصیب ہو سکا ہے اور نہ ہی معاشی استحکام۔ آئین و قانون کی بالادستی بھی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی اقوام تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے میں مصروف ہیں ۔ جبکہ ہم لایعنی معاملات اور مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت دنیا بھر میں اپنا سکہ جما چکا ہے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والا چین عالمی طاقت بننے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہا ں قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں کھڑے تھے۔بھارت، چین اور دیگر ممالک کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ پاکستان کا مقابلہ اور موازنہ بنگلہ دیش سے کریں تو یہ دیکھ کر دل دکھ سے بھر جاتا ہے کہ پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا بنگلہ دیش بہت سے شعبوں میں پاکستان سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ اس کی مصنوعات دنیا کے مختلف ممالک کی مارکیٹوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔ جبکہ پاکستان کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ آج بنگلہ دیش کا ایک ٹکہ ،پاکستانی اڑھائی روپے کے برابر ہے۔ بنگلہ دیشی پاسپورٹ، سبز پاسپورٹ سے کہیں ذیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارا پاسپورٹ بدترین پاسپورٹس کی فہرست میں شامل ہے اور صومالیہ کے ہم پلہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا ملک کیوں ترقی کی دوڑ میں اس قدر پیچھے رہ گیا ہے ؟ باریک بینی سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان حالات کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ سیاسی انتشار، افراتفری، مارشل لاز، حکومتیں بنانے اور گرانے کا عمل، ریاستی اداروں کا آئینی حدود سے تجاوز اور ایسے ہی دیگر عوامل پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جتنے بھی وزرائے اعظم آئے، ان میں سے ایک بھی پانچ سالہ مدت اقتدار مکمل نہیں کر سکا۔ کم و بیش یہی حال پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کا رہا۔ چند ایک کے سوا ، باقی تمام حکومتوں کو وقت سے پہلے رخصت ہونا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوا زشریف کے مابین میثاق جمہوریت ہوا تو پاکستان کی سیاسی فضا میں کچھ بہتری آئی۔ سیاسی اختلافات کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی حکومت گرانے سے گریز کیا۔ 2013 کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو مقبولیت حاصل ہونے کے بعد ملکی فضا میں ایک مرتبہ پھرتلخی در آئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تلخی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان چند برسوں میں جس طرح کی غیر اخلاقی زبان و بیان کو رواج دیا گیا اس کے بعد سیاسی عدم برداشت کی انتہا ہو چلی ہے۔ 
اس سیاسی مخالفت اور عدم برداشت کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہے۔ ایک دوسرے کوحکومتوں کو ناکام بنانے کی کاوشیں ہوتی رہیں۔آج کل بھی یہی کچھ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ حالات پر نگاہ ڈالیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کی اور عمران خان کی وفاقی حکومت کو رخصت کر دیا۔ اس کے بعد تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو بھی گھر جانا پڑا۔ اب چند ماہ بر سر اقتدار رہنے کے بعد حمزہ شہباز کی حکومت کو بھی ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے ر خصت ہونا پڑا ہے۔اس عدالتی فیصلے کی رو سے پرویز الٰہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھال چکے ہیں۔ 
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا قیاس ہے کہ پرویز الٰہی حکومت بھی مختصر مدت تک چل سکے گی۔ ابھی اس حکومت کے قیام کو چند روز ہی گزرے ہیں کہ وفاقی حکومت ، صوبہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کی آپشن پر غور کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا ء اللہ ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں ان کا داخلہ بند ہوا تو وہ صوبے میں گورنر راج لگا دینگے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے ترجمان یہ بیانات دے رہے ہیں کہ پی۔ڈی۔ایم کی وفاقی حکومت وینٹی لیٹر پر ہے، جب چاہیں سوئچ بند کر دیں گے اور وفاقی حکومت گرا دینگے۔ اس سیاسی ماردھاڑ کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اہم ریاستی اداروں کے نام کی گھونج بھی سیاسی معاملات میں سنائی دیتی ہے۔ اس سب کھیل میں اداروں کی ساکھ کے ساتھ ساتھ ان کی دھاک بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ 
قصہ مختصر یہ کہ سیاسی عدم استحکام کا وہ کھیل جس نے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے رکھی، وہ آج کل اپنے عروج پر ہے۔ اس کھیل کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر صرف اقتدار کا حصول ہے۔ کسی کو غرض نہیں کہ پاکستان کس تیزی سے ڈھلوان کے سفر کی جانب گامزن ہے۔ ہمارے پڑوس میں سری لنکا کے سیاسی حالات اور دیوالیہ ہونے کی خبریں بھی ملک کے اسٹیک ہولڈروں کے لئے سبق حاصل کرنے کا باعث نہیں بن سکیں۔یوں لگتا ہے جیسے عوام الناس کی حالت زار کی بھی کسی کوپرواہ نہیں ہے۔ عوام مہنگائی کے عذاب سے عاجز آچکے ہیں۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں نے ان کی کمر توڑ رکھی ہے۔ بہت سوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن حکومت بنانے کی خواہشمند جماعتیں عوام الناس کے مسائل سے لاتعلق سیاسی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ روزی روٹی کے حصول میں الجھے عوام جب ملک میں ہونے والے سیاسی کھیل کو دیکھتے ہوں گے تو ان پر کیا بیتتی ہو گی۔ انہیں یقینا ملک کاسیاسی منظرنامہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہو گی۔ 
خیال آتا ہے کہ کیا حرج تھا اگر پی۔ڈی۔ ایم میں شامل جماعتیںعدم اعتماد کی تحریک نہ لاتیں اور عمران خان کو حکومت کا عرصہ مکمل کرنے دیتیں۔ بالکل اسی طرح اگر پی۔ ڈی۔ ایم نے تحریک عدم اعتماد کی آپشن استعمال کرتے ہوئے،تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کر ہی دیا تھا تو عمران خان ملک میں سیاسی استحکام کی خاطر حکومت مخالف جلسے کرنے اور حکومت گرانے کی کوششیں ترک کر دیتے۔ اس سیاسی کھیل نے ملک کی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ خدا جانے حکومتیں بنانے گرانے اور ملک کی معیشت کمزور بنانے کا یہ سلسلہ کب تھمے گا۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے اہل سیاست کو فہم و فراست عطا کرئے اور انہیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر ملک کے مفادات کی فکر کریں۔

تبصرے بند ہیں.