سیاست ممکنات کا نام

19

پاکستان میں سیاست اخلاقیات یا اصولوں کا نہیں ممکنات کا نام ہے ،یہاں نہ جھکنے والا نہ بکنے والا کا نعرہ لگانے والے اپنے مفادات کے لیے جھک بھی جاتے ہیں اور بک بھی جاتے ہیں ۔ملک میں جاری سیاسی کشیدگی میں کسی جماعت کی جانب سے اخلاقیات کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔کہتے ہیں طاقت بدعنوانی کو جنم دیتی ہے اور مکمل طاقت مکمل بدعنوانی کو اور اس کا عملی مظاہرہ کسی نے دیکھنا ہو تو پاکستانی سیاست میں دیکھ لے ۔اصولوں اور اخلاقیات کی بات صرف حریف جماعتوں کے لیے ہے ورنہ ہماری سیاسی جماعتوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔جمہوریت کے لیے قربانی دینے کی باتیں کرنے والوں کی جماعتوں میں کتنی جمہوریت ہے ،سیاسی جماعتیں جو اپنے لیے حلال سمجھتی ہیں وہ حریف جماعت کے لیے حرام قرار دیتی ہیں۔آج پی ڈی ایم کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے پر کہ رہے ہیں کہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑے ڈاکو کہنے والوں نے اسے وزیر اعلیٰ بنایاتو کوئی ان سے پوچھے جب وہ ان کے گھر مذاکرات کے لیے جاتے تھے، جس دعائے خیر کی باتیں کرتے ہیں، کیا اس وقت پرویز الٰہی درویش تھے ۔ملکی سیاست میں اس وقت جو کچھ چل رہا ہے وہ بھی نیا نہیں ہے۔ماضی میں مسلم لیگ (ن)کے دور حکومت میں کسیے بلوچستان کی حکومت گرا ئی گی،کیسے باپ پارٹی بنائی اور ثنا اللہ زہری کی جگہ عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بلوچستان ،صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ اور سلیم مانڈی والا کو کیسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنایاوہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ تحریک انصاف کے سینیٹرز نے بھی سلیم مانڈی والا کو ووٹ دیئے تھے۔تحریک انصاف کی حکومت بنی تو حریف جماعتوں نے اسے سیلیکٹڈکا طعنہ دیا اور اداروں پر تنقید شروع کر دی کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی ہے ۔پھر عوام نے سینیٹ کے الیکشن دیکھے کہ اکثریت کے باوجود مسلم لیگ (ن)اور اس کی اتحادی جماعتیں اپنا چیئرمین سینیٹ (یوسف رضا گیلانی)نہ لا سکیں اور سینیٹ الیکشن میں سات ووٹ مسترد کر دیئے گئے ۔اس وقت مسلم لیگ (ن)اور اتحادی جماعتیں اصول اور اخلاقیات کی بات کر رہی تھی اور جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو تحریک انصاف نے اخلاقیات اور اصولوں کی باتیں شروع کر دیں ۔اس لیے تو کہتا ہوں کے پاکستان میں سیاست اخلاقیات یا اصولوں کا نہیں ممکنات کا نام ہے جس کو موقع ملتا ہے وہ داؤ لگا لیتا ہے اور جس کو نہیں ملتا وہ اخلاقیات اور اصولوں کی بات شروع کر دیتا ہے ورنہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ملک میں پہلے سیاسی جنگ لڑی جاتی تھی تو سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی تھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نیوٹرل ہونے کے بعد عدلیہ کا رول اہم ہو گیا ہے ایسا نہیں کہ عدلیہ کا رول پہلے اہم نہیں تھا ملک میں مارشل لالگے تو انہیں جائز قرار دینے کے لیے عدلیہ کی ہی مدد حاصل کی گئی اور اب سیاسی بحران کے حل کے لیے بھی بار بار عدلیہ سے رجوع کیا گیا ۔ ماضی میں بھی جب سیاسی کیس عدالتوں میں گئے تو کبھی ان پر چمک کا الزام لگا تو کبھی انہیں کینگرو کورٹس کہا گیا اور آج بھی جس فریق کے حق میں فیصلہ نہیں آتا وہ عدلیہ پر تنقید شروع کر دیتے ہیں ۔عدلیہ کی جانب سے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کافیصلہ خوش آئند تھا اور اب بھی معزز عدلیہ نے جو فیصلہ دیا اسے قبول کیا جانا چاہے لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ سیاستدان اپنے اختلافات تحمل اور بردباری کے ساتھ مل بیٹھ کر حل کر یں اور ہر مسئلہ کو عدالتوں میں نہ لے کر جائیں، اس سے عدلیہ کا وقار کم ہوتا ہے۔موجودہ سیاسی حالات میں مسلم لیگ(ن)کی جانب سے گورنر راج کی بات کی جا رہی ہے جو سیاسی کشیدگی میں مذید اضافہ کرے گی،وفاقی حکومت کو کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے جس سے ملک میں انارکی پھیلے ۔ویسے بھی ان کے ایسے اقدام کو عدلیہ ختم کر دے گی اور انہیں تو یاد ہو گا جب 2009میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کے خلاف گورنر راج لگایا اس وقت سلمان تاثیر گورنر تھے لیکن عدالت نے گورنر راج کو ختم کر کے شہباز حکومت کو بحال کر دیا تھا۔ اس لیے حکومت کو کسی ایسے ایڈونچر کرنے کی ضرورت نہیں ۔اس وقت سب سیاست دان اپنی سیاست کا سوچ رہے ہیں ملک کا کوئی نہیں سوچ رہا تو یہ ملک کیسے چلے گا ،ملک کسی نظام کے تحت چلتے ہیں یہاں ہماری سیاسی جماعتیں طاقت کے زور پر چلانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ایک طرف عوام کو بتایا جا رہا کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے سری لنکا جیسے حالات کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن مل بیٹھ کر بحران سے نکلنے کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔ہم ایک ایسے ملک کے رہنے والے ہیں جہاں کے طاقتور وں نے ملک کو تماشہ بنا رکھا ہے ، جب سے پاکستان بنا ہے عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ہم نازک دور سے گذر رہے ہیں پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ نازک دور کس کی وجہ سے آیا ۔ نازک دور میں سیاستدان تو ارب ،کھرب پتی ہو گئے لیکن عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے اور آج بھی قربانی عوام سے مانگی جاتی ہے۔مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ غریب کے لیے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو گیا لیکن یہاں برینڈڈ سوٹ پہن کر عوام کو بتایا جاتا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کرنا ناگزیر ہے ،بجلی کی قیمتوں میں تین روپے پچاس پیسے اضافہ کر دیا گیا ہے اور آئندہ ماہ مزید ساڑھے تین روپے اضافہ کر دیا جائے گا ،روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے ،ڈالر کی پرواز روکنے کا نام نہیں لے رہی حکومت کی لسٹوں پر کوئی چیز فروخت نہیں ہو رہی ،کراچی جیسے شہر میں کشتی پر شہریوں کو ریسکیو کیا گیا ،راولپنڈی ڈوب گیا،دیواریں ،چھتیں گرنے سے درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے لیکن ہمارے سیاستدان اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں ۔اربوں روپے ضمنی الیکشن اوراجلاسوں پر خرچ کیے جاتے ہیں اور جو اجلاس عوام کی فلاح و بہود اور قانون سازی کے لیے ہونے چاہئیں وہ اپنے اقتدار کے لیے جوڑ توڑ میں ضائع کر دیتے ہیں،ہے کوئی پوچھنے والا۔اب بھی ایک دوسرے کو للکارا جا رہا ہے کہ وفاق میں حکومت نہیں چلنے دیں گے وہ کہہ رہے ہیں پنجاب میں نہیں چلنے دیں گے جناب یہ ملک آپ کا نہیں عوام کا ہے اگر انہوں نے فیصلہ کر لیا تو پھر وہ کسی کی بھی نہیں چلنے دیں گے ۔اس لیے ضروری ہے کہ عوام کی طرف رجوع کیا جائے وہ جس کو مینڈیٹ دیں اس کا احترام کیا جائے۔مسائل کا حل نئے الیکشن میں ہے۔ باقی راستے بحران اور مسائل میں اضافہ کریں گے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ڈائیلاگ کریں نہیں تو ان کی لڑائی میں نقصان ملک و قوم کا ہو گا ۔

تبصرے بند ہیں.