تارکین وطن

14

افغانستان پر جس کسی نے بھی حملہ کیا وہ ہمیشہ ناکام واپس لوٹا۔۔مگر ان حملوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان افغانیوں کو ہوا۔ نا ئن الیون حملوں کے بعد دنیا میں ایک نئی جنگ کا اغاز ہوا۔امریکہ نے وار آن ٹیرر کے نام سے افغان طالبان کو افغان سرزمین پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔فیصلے کے نتیجے میں افغانستان پر دھاوا بولا گیا اور ایک بار پھر 80 دہائی کی طرح بلڈ باتھ بنایا۔دو دہائیوں پر محیط اس قتل و غار ت کا انجام وہیں ہوا جہاں سے شروع ہوا۔طالبان حکومت کو تنگ نظری اور دہشتگری کی بنیاد پر ختم کرنے والے امریکہ نے تقریباً بیس سال بعد طالبان کو ہی اقتدار واپس سونپ دیا۔لیکن اس سب کے بیچ نقصان ہوا تو نہتے افغانیوں کا ہوا۔تعلیم ،صحت ،انصاف ،روزگار، رہن سہن ،لٹریچر،علم فنون سے لیکر ثقافت تک ختم ہوگئی۔ بیس سال مسلسل حالات جنگ میں رہنے والے افغانیوں نے بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر دوسرے ممالک کی طرف رخ اختیار کر لیا ہے۔آج ایشیا میں سب سے زیادہ تارکین وطن افغانستان سے ہیں اور ایشیا میں پاکستان اور ایران تارکین وطن کی میزبانی کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہیں۔پاکستان اب تک 30 لاکھ افغان مہاجرین کو پنا ہ دے چکاہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین)یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان نے تقریباً 14 لاکھ افغان مہاجرین کے ڈیٹا کی تصدیق کا عمل مکمل کیا ہے اور رجسٹرڈ مہاجرین میں 2 لاکھ سے زائد 5 سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اگست 2012 میں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد سے لیکر کر اب تک تقریباً 80000 ہزار افغان باشندے پاکستان داخل ہو چکے ہیں جن میں قانونی طور پر ویزا لے کر آنے والے اور غیر قانونی طورپر سرحد پار کرکے داخل ہونے والے بھی شامل ہیں۔حکومت پاکستان پہلے سے موجود افغان پناہ گزینوں کو گزشتہ تیس سال سے رکھے ہوئے ہے۔ مگر آج کے دن تک کوئی افغان مہاجرین کے لیے کوئی پالیسی مرتب نہ کر سکی۔گزشتہ کچھ مہینوں سے افغان مہاجرین وقتاً فوقتاً احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔احتجاج کی وجوہات میں افغان باشندوں کے لیے بنیاد ی ضروریات زندگی اور سہولیات زندگی کا فقدان ہے۔معاشی اور انتظامی مسائل میں گھری ہوئی افغان طالبان کی حکومت اپنے باشندوں کو بہتر زندگی نہیں دے پا رہی جس کی وجہ سے افغان باشندے پاکستان کی طرف رخ کر رہے ہیں۔مگر یہاں آ کر بھی افغان باشندوں کوانہی مسائل کا سامنا ہے جو اپنے وطن میں تھا۔حکومت افغان باشندوں کے لیے ویزا پالیسی دینے کے علاوہ ابھی تک کچھ نہ کر سکی۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان حکومت افغان مہاجرین کے لیے کوئی پالیسی کیوں نہ بنا سکی؟اس سے قبل سوال یہ اٹھتا ہے کہ افغان پناہ گزین چاہتے کیاہیں؟گزشتہ کچھ دنوں سے افغان مہاجرین کا اسلام آباد میں جاری احتجاج کو دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ افغان پناہ گزین خوراک ،رہائش ،علاج ، تعلیم اور بہتر روزگار چاہتے ہیں۔مغربی دنیامیں یورپ ہو یا امریکہ وہاں مہاجرین کے لیے اسپیشل پالیسی بنائی جاتی ہے جس کے تحت مہاجرین کو وہ تمام بنیادی سہولیات دی جاتی ہیں جو وہ اپنے شہریوں کو مہیا کرتی ہیں۔جب افغان مہاجرین کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کے ذریعے رجسٹرڈ کیا جا سکتا ہے تو ان کے لیے باقی سہولیات کا انتظام کیونکر مشکل ہو گیا ہے؟ تاہم یہ بات اہم ہے کہ پاکستان سمیت کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے جنیوا کنونشن برائے پناہ گزین 1951 پر دستخط نہیں کیے لہٰذا پاکستان جنیوا کنونشن کے اس قانون کے تحت سہولیات دینے کا پابند نہیں ہے۔مگر پاکستان بھی ایران کی طرح ایک خود مختار پالیسی بنا کر افغان پناہ گزینوں کو بہتر زندگی دے سکتاہے۔اوراسی بہتر زندگی دینے کی بدولت پاکستان مستقبل میں پروان چڑھنے والی افغان نسل کے ذہنوں میں مثبت سوچ کو پروان چڑھا سکتاہے۔آخر افغان مہاجرین بھی انسان ہیں۔ ریاست پاکستان کو افغانستا ن سے پناہ کی غرض سے آنے والوں کو پناہ گزین کا درجہ دے کر شناخت مہیا کرے اور یو این ایچ سی آر کے ساتھ ملکر ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے۔کیونکہ دنیا میں انسانیت سے بڑا کو ئی مذہب نہیں۔

تبصرے بند ہیں.