سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا،حمزہ شہباز آؤٹ، پرویز الہٰی وزیراعلیٰ پنجاب

58

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف درخواست پر سماعت مکمل ہونے پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا ہے۔ مختصر فیصلہ 11 صفحات پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں تاخیر پر معذرت کی۔

 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تین رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قراردے دی گئی ہے جبکہ پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دے دیا گیا۔ آج رات ساڑھے گیارہ بجے حلف اٹھائیں۔ گورنر پنجاب پرویز الہٰی سے حلف لیں۔

 

قبل ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو آغاز پر ہی عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل نے عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کی ہدایت کی ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے، یہ کہہ کر وہ عدالت سے چلے گئے جبکہ اس موقع پر فاروق نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کر دیا اور کہا کہ پی پی پی بھی عدالت میں پیش نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دئیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔ عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، جس کیس میں 8 ججز نے فیصلہ دیا، وہ 17 رکنی بنچ تھا، آرٹیکل 63 سے فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا، فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

چیف جسٹس نے چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بنچ سے الگ ہو جائیں، عدالتی بائیکاٹ کرنے والے شائستگی اور اعلیٰ وقار کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کر دیا ہے تو عدالتی کارروائی سنیں۔

چیف جسٹس نے چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں، عدالتی بائیکاٹ کرنے والے شائستگی کا مظاہرہ کریں، بائیکاٹ کردیا ہے تو عدالتی کارروائی کو سنیں، دوسرے فریق سن رہے ہیں لیکن کارروائی میں حصہ نہیں لے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔

علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں 13/4 کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں اور اس کیس میں جسٹس جواد خواجہ نے آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، ان کی رائے تھی کہ آرٹیکل 63 اے ارکان کو آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹری پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے بتایا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا۔

جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈر کا لفظ محض غلطی تھی، کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا یا نہیں۔

وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ پارٹی سربراہ کا پارٹی پر کنٹرول کا کوئی سوال نہیں ہے، پارٹی کے اندر تمام اختیارات سربراہ کے ہی ہوتے ہیں لیکن آرٹیکل 63 میں ارکان کو ہدایت دینا پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ تو واضح ہے کہ اگر کسی ممبر کو ضمیر کے مطابق پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفیٰ دے کر دوبارہ آ جائے، عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں لیکن ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ جاری کرتا ہے، کل عدالت میں بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تھا، سپریم کورٹ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی پابند ہے؟

علی ظفر نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی قانون سپریم کورٹ کو الیکشن کمیشن فیصلے کا پابند نہیں بناتا جس پر جسٹس الاحسن نے استفسار کیا کہ کتنے منحرف ارکان نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا؟ تو وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ 20 میں سے 16 نے مسلم لیگ (ن)، 2 نے آزاد الیکشن لڑا، جن 18 نے الیکشن لڑا ان میں سے 17 کو شکست ہوئی۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ فریق دفاع کے مطابق منحرف ارکان کے کیس میں ہدایات پارٹی ہیڈ عمران خان نے دی اور اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم ہوا تو 25 ارکان بحال ہو جائیں گے اور حمزہ کے ووٹ 197 ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا، اب مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔

تبصرے بند ہیں.