کسی شخصیت کے کام اور اس کے ویژن پر خاکہ، کالم لکھنا ایسے ہی ہے جیسے دریا کو ایک کُوزے میں بند کردینا۔ شخصیت کبھی بھی عام نہیں ہوتی اس کے لیے کام ہی اس کی شناخت اور وجہ شہرت ہوتے ہیں۔ محمود بھٹی کبھی ایک یتیم بچہ تھا، نوعمری میں والد کا سایہ، دعا بھرے ہاتھ، شفقت بھری نگاہیں جب کسی بچے کے سر سے اُٹھ جائیں تو پھر وہ یتیم ہی جانتا ہے کہ وہ زمانہ کے گھائو، ننھی منی خواہشات، کھلونوں کی آرزو لیے وہ کتاب اور قلم کی تمنا بھی کر بیٹھتا ہے، صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی اس کا بھروسہ، اس کا اعتماد جسے وہ پالیتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جن کے ہوتے ہیں وہ بھی مل جاتے ہیں اور جن کے نہیں ہوتے وہ اپنی محنت اور لگن سے سے بھی کچھ ایسا کر جاتے ہیں وہ پھر محمود بھٹی کہلاتے ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اور اللہ نے تم کو زمین سے جس طرح اُگایا … پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور پھر یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں پر چلو‘‘۔ (سورۃ نوح، آیت 17 تا 19)
دنیا میں آپ کے لیے اگر کوئی محفوظ ترین مقام ہوتا ہے تو وہ ماں کی آغوش اور باپ کا سایہ … محمود بھٹی اپنی نوعمری میں ماں باپ سے محروم ہو گیا تھا۔ اس وقت اس کی منزل اس کے ماں باپ تھے جسے اس نے یتیمی کی شناخت میں کھو دیا تھا۔ اس نے دنیا کے زمانے کو چھوڑ کر اپنا زمانہ بنانا شروع کردیا۔ وہ کبھی کسی کے در پر اس لیے دستک دینے نہیں گیا کہ وہ سوالی نہیں بننا چاہتا تھا کہ وہ تو خدا کا سوالی تھا، پھر بشر سے کیا سوال کرنا…
ہمت مرداں مدد خدا
اس نے اپنی ہی زندگی کے دروازے پر دستک دے ڈالی۔ خدا نے مدد کی اور وہ اپنی دھرتی سے اوروں کی دھرتی میںجا بسا۔ داغ زندگی، خوبصورت کردار، اپنی شناخت کا خود استاد اور پھر اس نے بنانے زمانے کے ساتھ دنیا کے زمانے کو احساس دلایا کہ میں محمود بھٹی ہوں … اس نے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے محمود بھٹی کو اجاگر کردیا۔ اس نے سارے عشق بھلا کر کام کے عشق کو تھام لیا۔ آج وہ کسی سرورق میں ہو یا خبر کے متن میں، اس نے زندگی کو اوروں کے لیے وقف کردیا۔
جناب چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ایک نگاہ ادھر بھی … درج بالا باتیں ایک یتیم بچے کی ہیں جو کل بھی ماں باپ تھا اور آج محمود بھٹی کی شکل میں جب وہ یتیموں کی زندگی بہتر کرنے کے لیے ٹھان لیتا ہے اور چاہتا ہے کہ میرے ملک کا کوئی یتیم بچہ کسی در پر سوالی بن کر دستک نہ دے، کوئی یتیم بچہ ادھر ادھر بھٹک کر زندگی تباہ کر نہ بیٹھے اور وہ زمانے کا ٹھکرایا بچہ نہ کہلائے۔ یہ سوچ کر اس خدا کے بندے نے یتیم بچوں کے لیے ایک بڑا مسکن بنانے کا عہد کرتے ہوئے شہر لاہور میں ایک بڑا رقبہ لے لیا تاکہ وہ یہاں تمام یتیم بچوں کی پرورش کر کے ان کو زمانے کے برابر لاکھڑا کرے۔
جناب چیف جسٹس صاحب!
اوورسیز پاکستانی ہونے کے ناطے محمود بھٹی نے زندگی بھر کی کمائی اوروں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنی دھرتی کے حوالے کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے ساتھ کیے عہد کو نبھانے کی ٹھان لی کہ جب اس ذات نے مجھے کسی قابل بنایا تو میں کچھ اور کروں نہ کروں ایک بڑا گھر بنائوں گا جو یتیم بچوں کی پناہ گاہ کے ساتھ ان کا گھر بھی ہو گا، شومئی قسمت کہ محمود بھٹی نے قانون کی رکھوالی کرنے والے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو رکھوالا بنادیا اور پھر اس رکھوالے نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر یتیموں کی زمین پر قبضہ کرتے ہوئے اس اوورسیز پاکستانی کی عمر بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے محمود بھٹی کو جعلی مقدمات میں الجھادیا…
جناب چیف جسٹس صاحب! ایک ناجائز مقدمہ آپ کے زیرسایہ عدالتوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ ایک بڑا فراڈ، جو قانون دان کرتا ہے، آپ کا قانون اس قانون دان کے غلط، فراڈ اور جعلی دستاویز کے ساتھ اس کا بھرپور تحفظ کررہا ہے۔ وہ ایسا بدکردار قانون دان وکیل ہے جس نے یتیموں کے حق پر ڈاکہ ڈالا اور آپ کی عدالتیں محمود بھٹی کو انصاف دینے کے بجائے اس کو عدالتوں میں ایک ایسا پتھر بنا کے رکھے ہوئے ہیں کہ کبھی اس تو کبھی اس عدالت میں وہ اپنا حق لیتے ہوئے بھی ناانصافی کا شکار بنایا جارہا ہے۔ محمود بھٹی ایک فریادی ہے ایک محب وطن پاکستانی ہے، اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ پاکستان میں جینا مرنا چاہتا ہے۔ اس کی غلطی یہ ہے کہ اس نے انسانیت کی خدمت کی ٹھانی۔ زمین خریدی اور پھر ایک ڈاکو قانون دان نے یتیموں کے حق پر ڈاکہ ڈال دیا۔
محمود بھٹی کے بارے میں کون نہیں جانتا … آپ بھی جانتے ہیں مائی لارڈ کہ وہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر ہے، اس نے پوری دنیا گھوم کر سبزہلالی پرچم کو عزت دی اور آج بہت سے لوگ اس کو پاکستان کے حوالے سے نام دیتے ہیں، یہی اس کا فخر اور عمر بھر کی کمائی ہے۔ وہ محمود بھٹی آپ کی عدالت سے انصاف چاہتا ہے کہ اس کو سنا جائے اور یتیموں کے لیے خریدی زمین جو اس نے خدا تعالیٰ سے وعدہ کر کے لی تھی وہ زمین انصاف مانگتی ہے … یتیموں کی زمین انصاف مانگتی ہے، آپ بھلے محمود بھٹی کو انصاف نہ دیں مگر یتیموں کی زمین ان کو واپس لوٹا دیں۔ یہی وہ جنت ہے جو آپ دنیا اور آخرت میں بھی کما جائیں گے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.