فل کورٹ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد، 5 ججوں نے وزیراعظم کو گھر بھیجا تو مٹھائیاں بانٹی گئیں: چیف جسٹس
اسلام آباد: سپریم کورٹ نےفل کورٹ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کردی ہیں۔ فل کورٹ نہ بنانے کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔یہ ہی کیس بنچ کی سماعت کرے گا۔ڈپٹی سپیکر کیس کل صبح ساڑھے گیارہ بجے سماعت کی جائے گی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی امتیاز صدیقی کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا۔ڈپٹی سپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط انکی جیب میں تھا۔ڈپٹی اسپیکر کو خط کسی نے آ کر نہیں دیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال حکومتی وکلا اور وزیر قانون پر برہم ہوگئے ۔کہتے ہیں انہی پانچ ججوں نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا تب تو آپ نے مٹھائیں بانٹی تھیں اب آپ دوسری طرف جا کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ہمارے ملک میں گورننس کو بہت بڑا مسئلہ ہے۔
وقفے کے بعد سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی فل کورٹ کی ضرورت نہیں مزید دلائل سننے کے بعد فیصلہ کریں گے ضرورت ہے کہ نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ بنچ تشکیل دینا ہے یا نہیں ابھی اس کیلئے مزید سماعت کی ضرورت ہے۔ کیس میرٹ پر سنیں گے ۔ فل کورٹ بنانے کیلئے پر آج فیصلہ ہو گا یا نہیں ،کچھ نہیں کہہ سکتا،یہ سنجیدہ مسئلہ ہے کیس کو سننا چاہتے ہیں ، 21ویں آئینی ترمیم کا مسئلہ تھا۔ 5 ججوں کے ساتھ ہم نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم، این آر او کیس میں آئینی سوال تھا۔ سنجیدہ معاملہ ہے ،اسے غور سے سننا چاہتے ہیں ۔ آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے۔
،جسٹس اعجاز الحسن کا کہنا ہے ،کیس کو میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بننا چاہیے یا نہیں ، آپ عدالت سے فوری خریداری چاہتے ہیں، وزیر قانون نے کہا ہمیں اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کیلئے وقت چاہیے۔ ہمیں صرف فل کورٹ پر دلائل دینے کی ہدایات ملی تھیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر کو کہا کہ آپ بسم اللہ کرکے دلائل شروع کریں۔ عرفان قادر نے کہا کہ میرے دلائل فل کورٹ بنانے پر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بینچ کی نیوٹرلٹی پر اعتراض نہیں لیکن الزامات کو رد کرنے کیلئے فل کورٹ ضروری ہے۔ اگر اسی بنچ نے کیس سننا ہے تو تمام فریقین کو عزت ملنا چاہیے۔
عرفان قادر کا مزید کہنا تھا کہ جب بار بار بنچ میں ایک ہی طرح کے جج آتے ہیں تو اس الزام کو فل کورٹ کے ذریعے مسترد کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ پیچیدہ کیسز پر بنایا جاتا ہے یہ کیس پیچیدہ نہیں ہے۔
تبصرے بند ہیں.