عدم استحکام کے اثرات!

20

ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔ ایک کے بعد ایک بحران سامنے آجاتا ہے۔ ابھی تک پی۔ڈی۔ایم کی حکومت میں بھی عوام الناس کو سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔ عمران خان کی حکومت میں بھی عوام کو کمر توڑ مہنگائی کا سامنا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے بجلی، گیس، تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی تھیں۔اس قدر مہنگائی ہو گئی کہ ادویات اور اشیائے خورد و نوش بھی عوام الناس کی پہنچ سے باہر نکل گئیں۔ تحریک انصاف کے سپورٹر ز بھی حالات سے بے حد مایوس تھے۔ پی۔ڈی۔ایم کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو بہت سوں کو امید بندھی تھی کہ ملکی حالات میں کچھ بہتری آئے گی۔ مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف میسر ہو گا۔ بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ملکی حالات میں بہتری کی امیدیں اور اندازے غلط ثابت ہوئے۔ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بجلی ، تیل اور گیس کی قیمتیں پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک پہنچ گئیں۔ شہباز حکومت کا موقف ہے کہ انہیں خالی خزانہ اور تباہ حال معیشت ورثے میں ملی۔ ملک کو سری لنکا بننے اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے انہیں بہ امر مجبوری بہت سے مشکل فیصلے کرنا پڑے۔ اور مہنگائی کا بوجھ عوام کے نازک کاندھوں پر ڈالنا پڑا۔ کسی حد تک یہ موقف قابل جواز ہے۔ غیر جانبدار ماہر ین معیشت اور تجزیہ کار بھی یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ لیکن عوام کو کسی موقف ، کسی جواز سے کوئی غرض نہیں ۔ انہیں سروکار نہیں کہ عمران حکومت آنے والوں کیلئے بارودی سرنگیں لگا کر گئی تھی۔ نہ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی ہے کہ اس حکومت کو خالی خزانہ یا برباد معیشت ورثے میں ملی تھی۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد عوام کی زندگی میں سکون آنے کے بجائے مزید اضطراب در آیا ہے۔ لہٰذا بر اقتدار آنے سے لے کر اب تک وفاقی حکومت تنقید کی زد میں ہے۔
 پاکستان کے قیام کو پچھتر برس ہونے والے ہیں۔ قابل افسوس امر ہے کہ ہمیں ان برسوں میں طویل المدت سیاسی استحکام نصیب نہیں ہو سکا۔ گزرے برسوں میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف رہیں۔ سازشوں کے جال بنے جاتے رہے۔ مارشل لاء لگتے رہے۔ حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی رہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ملکی سیاسی حالات جوں کے توں ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیں۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور برسر اقتدار حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کا بھی۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں جلسے جلوس کرنے اور اپنے حمایتیوں کو جوش دلانے میں مصروف ہیں۔ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے حصول کیلئے ایک سیاسی دنگل جاری ہے۔ ہر طرح کے سیاسی حربے استعمال ہو رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کا بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ کتنا عرصہ چل پائے گی۔ مختصر یہ کہ ساراملک بے یقینی اور عدم استحکام کی صلیب پر ٹنگا ہوا ہے۔ یہ سیاسی بے یقینی اور عدم استحکا م ہی دراصل تمام مسائل کی جڑ ہے۔ہم آگاہ ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ 
شہباز حکومت کو اگر سیاسی انتشار اوربے یقینی درپیش نہ ہوتی تو ملکی حالات مختلف ہوسکتے تھے۔ سیاسی بے یقینی جس چیز کو سب سے پہلے متاثر کرتی ہے وہ ملکی معیشت ہے۔کسی حکومت کے بارے میں یہ تاثر نہایت منفی ہوتا ہے کہ وہ آج گئی یا کل۔ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے اندرونی اور  بیرونی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ سرمایہ کاری نہیں ہوتی تو لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر نہیں آتے۔ غیر ملکی اداروں سے قرض کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ سیاسی بے یقینی نے کمزور معیشت کو مزید کمزور بنا ڈالا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی چلی جا رہی ہے ۔ سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے۔ غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف اپنی شرائط منوانے کے بعد بھی قرض کی قسط جاری کرتے ہوئے تذبذب میں مبتلا ہے۔ کاروبار ی حالات بھی دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی معیشت کی نمو میں اہم حصہ دار ہے، سنتے ہیں کہ یہ سیکٹر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کم و بیش تین سو ملز بند ہونے کے قریب ہیں۔ اب اگر یہ کارخانے بند ہوجاتے ہیں تو کئی سو ملین ڈالرز کی ماہانہ ایکسپورٹ متاثر ہو گی، ساتھ ہی ساتھ ہزاروں ، لاکھوں لوگ بیروزگار بھی ہو جائیں گے۔ اس وقت 45 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ان کارخانوں کے بند ہونے سے مزید کئی فیصد آبادی خط غربت سے نیچے دھکیلی جائے گی۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ لوگ مہنگائی کے طوفان سے عاجز آچکے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو دیکھیں تو ہر ایک کو اپنی بقا کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ تمام جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔ تحریک انصاف نے جو سیاسی افراتفری پھیلا رکھی ہے اس کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ جواباً حکومتی جماعتیں بھی اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے کوشاں نظر آتی ہیں۔ایسے میں مجھ جیسے عام شہری سوچتے ہیں کہ اہل سیاست کو عوام الناس کے دکھوں کا احساس کب ہو گا؟ کب وہ وقت آئے گا کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کی خواہش سے آزاد ہو کر عوام کے مسائل کا حل کرنے کیلئے متحرک ہو نگی۔
حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ان نازک ملکی حالات میں سیاسی اور شخصی مفادات کو ایک طرف رکھ دیا جائے ۔ تمام اسٹیک ہولڈروں کو مل بیٹھ کر عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کاوش کرنی چاہیے۔سیاسی محاذ پر جو کھیل تماشا جاری ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں کے لئے یقینا تسکین کا باعث ہو گا۔ میڈیا کو بھی اس کھیل تماشے سے روزی روٹی اور ریٹنگ کا سامان میسر آتا ہے۔ مگر ملک اور عوام کو اس سرکس کا کوئی فائدہ نہیں۔ نہایت ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں فہم و فراست کا ثبوت دیں اور اس کھیل تماشے کو کچھ عرصہ کیلئے موقوف کر دیں۔ لازم ہے کہ ملکی معیشت سنبھلنے تک سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیاں جماعتی مفادات کے بجائے، عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیں۔ لیکن بد قسمتی سے اس کا امکان نہیں ہے۔ 

تبصرے بند ہیں.