کیا ہم سب غدار ہیں۔۔۔؟؟

14

فی زمانہ یوں تو پاکستانی معاشرہ ہر سطح پر اتنا تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے کہ الاماں والحفیظ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی برداشت بھی ختم ہو چکی ہے اور ہم دوسرے کی بات سنے بغیر ہر قیمت پر اپنا بیانیہ دوسروں پر تھوپنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ دوسروں کا موقف سننے یا دیکھنے کے روادار ہی نہیں۔ یہ بیماری اوپر سے نیچے اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ ہر شخص دل و جان سے اس کی لپیٹ میں ہے۔ انسانی معاشرے میں بڑے بڑے انقلاب لیڈرشپ کے ذریعے ہی آئے ہیں۔ کہیں اور کی مثال چھوڑیں اپنے پاکستان کے حصول کی کہانی لے لیں کہ کس طرح قائداعظمؒ کی آواز پر قوم نے لبیک کہا اور آج ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ لیڈرشپ ہی عوام کے رویوں کو بدل سکتی ہے۔ لیکن جب لیڈرشپ ہی منفیت کو ہوا دے اور ہر قیمت پر اپنی جیت چاہے تو عوام بھی اسی طرف چل پڑتے ہیں۔ آج کل کا ماحول دیکھیں ہر طرف سے غداری کے فتووں کا رواج ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اور لیڈر اس دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ جو ہمارا تجربہ ہے کہ غداری کے فتوے تب لگتے ہیں جب آپ کے پاس دوسروں کے بیانیہ کو غلط ثابت کرنے کو دلائل نہ ہوں تب غداری کے فتوں کا نسخہ آزمایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے نتائج خوفناک ہوتے ہیں۔ ماضی میں متحدہ پاکستان کے اکثریتی لیڈر شیخ مجیب کو غدار کہا گیا اور نتیجتاً ملک ٹوٹ گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ سیاستدانوں کی ایک دوسرے سے چپقلش یا مخالفت اور مختلف فتوے جاری کرنا معمول کی بات ہے لیکن ہمارے ملک کی کابینہ نے اپوزیشن کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی سنگین غداری کے تحت کارروائی کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔ جی بالکل پاکستان میں سیاسی دشمنی اس حد تک جا چکی ہے کہ وفاقی کابینہ نے سابق وزیر اعظم اور 2018 کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کے حساب سے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، قومی اسمبلی، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کی واحد اکثریتی جماعت، عددی لحاظ سے سندھ اور بلوچستان کی دوسری بڑی جماعت کو آئین کے آرٹیکل 6 کے ذریعے غداری کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لیے وفاقی کابینہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ اس میں ایک اعلامیے کے مطابق ساجھے دار پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، جمعیت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم سمیت دیگر اتحادی جماعتیں شامل ہیں۔ آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کا الزام سنگین ترین ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ محض سیاسی مخالفت کی وجہ سے اس آرٹیکل کا سہارا لیا جائے۔ دیکھا جائے تو اس کمیٹی میں ’’جناح پور‘‘ کی مبینہ خالق جماعت ایم کیو ایم، پاکستان کے وجود سے انکاری جمعیت علمائے اسلام، ملک توڑنے کی سازش میں مبینہ طور پر شریک پیپلز پارٹی اور سپریم کورٹ پر حملہ سے لے کر ججوں کی خریداری اور پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف نام لے لے کر زہر اگلنے والی مسلم لیگ نواز شامل ہیں۔ یعنی جن کے خلاف کارروائی ہونا چاہیے تھی وہی اس کے مدعی ہیں۔
آخر مخلوط حکومت پاکستان کو کس طرف لے کر جانا چاہتی ہے؟ مخلوط حکومت ایسا دروازہ کھول رہی ہے کہ کل کوئی بھی جماعت اقتدار میں آ کر سیاسی مخالفین کے خلاف آرٹیکل 6 لگا سکتی ہے۔ پھر تو پاکستان میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے 50 فیصد غداری کے ملزم بن جائیں گے۔ ہمارے عوام اتنے بھولے ہیں کہ ملزم اور مجرم کا فرق جانے بغیر ہی ملزم کو مجرم سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس میں بڑا حصہ اس سیاسی قیادت کا ہوتا ہے جو سٹیج اور عوام سے رابطہ مہم کے دوران مخالفین کو غداری کا لقب دیتی ہے۔
دیکھا جائے تو ایسا کچھ تو پاکستان توڑنے کی سازش کے دوران ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کے خلاف بھی نہیں کیا تھا۔ بھٹو نے اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگایا تو اس پر آرٹیکل 6 نہ لگا، یحییٰ خان نے پاکستان کی ایک لاکھ فوج کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پاکستان توڑنے کے جرم میں مرکزی کردار رہا تو اس کے خلاف آرٹیکل 6 نہ لگا۔ اسی طرح ایوب خان اور ضیاالحق پر الزامات کی فہرست سنگین اور طویل ہے لیکن ان کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ سابق جنرل مشرف کے خلاف کارروائی ہوئی لیکن آخر وقت میں وہ بھی دبئی پہنچ گئے۔
وفاقی کابینہ کا یہ عمل ہمارے لیے جگ ہنسائی کا ذریعہ بھی بنا ہے کہ پہلی بار اتحادی حکومت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سے سیاسی میدان میں مقابلے کے بجائے امریکہ نواز ڈکٹیٹر ایوب خان کی طرح طاقت کا استعمال کر کے اپنی مخالف سیاسی قوت کا گلا گھوٹنے کے درپے ہے۔ ایک مسلم لیگی آف دی ریکارڈ فرماتے ہیں کہ آرٹیکل 6 کے ساتھ آرٹیکل 5 کی کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کابینہ میں اس تجویز کی مسلم لیگ ن کے بعد سب سے بڑی حمایتی پیپلز پارٹی تھی۔
آرٹیکل 6 اور 5 کی تفصیل میں جائیں تو کوئی ڈکٹیٹر، اعلیٰ عدلیہ یا سیاسی جماعت اس سے بچ نہ سکے گی ہر جماعت نے ماضی میں کچھ نہ کچھ ایسا کیا ہے جو اس آرٹیکل کے زمرے میں آتا ہے۔ قارئین کے لیے آرٹیکل 6 اور 5 کا متن من و عن درج کر رہا ہوں تا کہ عوام اندازہ لگا لیں کہ اگر الزام لگانے پر آ جائیں تو کون سی جماعت محفوظ رہ سکتی ہے۔
Article-6-High treason
(1)Any person who abrogates or subverts or suspends or holds in abeyance, or attempts or conspires to abrogate or subvert or suspend or hold in abeyance, the Constitution by use of force or show of force or by any other unconstitutional means shall be guilty of high treason.
 (2)Any person aiding or abetting  12[or collaborating] 12 the acts mentioned in clause (1) shall likewise be guilty of high treason.
 (2A)An act of high treason mentioned in clause (1) or clause (2) shall not be validated by any court including the Supreme Court and a High Court.
 (3)[Majlis-e-Shoora (Parliament)] shall by law provide for the punishment of persons found guilty of high treason.
اس کلاز کے اطلاق کے بعد پاکستان میں آئین توڑنے والے، سازش کرنے والے، مارشل لا لگانے والے، نظریہ ضرورت والے، ڈکٹیٹرز کو آئینی ترامیم کی اجازت دینے والے یا اس کی حمایت کرنے والے بچ پائیں گے۔
Article-5- Loyalty to State and obedience to Constitution and law.
(1)Loyalty to the State is the basic duty of every citizen.
 (2)Obedience to the Constitution and law is the  inviolable obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within Pakistan.
 آرٹیکل 6 کو لاگو کرنا تو اداروں کا کام ہے لیکن آئین کی روح کے مطابق اطلاق کے بعد کون بچ پائے گا۔ سیاستدانوں کو چاہیے کہ سیاسی کھیل تماشوں اور مقابلوں کے لیے سیاسی میدان ہی بہتر ہیں اپنے مخالفین کا وہیں مقابلہ کریں ورنہ کوئی نہ بچ پائے گا۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

تبصرے بند ہیں.